واشنگٹن۔ امریکہ کے ذریعہ فلسطینیوں کے لئے کروڑوں ڈالر کی امداد روک دئیے جانے پر اقوام متحدہ نے شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، امریکا نے فلسطین کے لئے ساڑھے 6 کروڑ ڈالر کی امداد روک دی ہے۔ یہ امداد اقوام متحدہ کے ذریعے فلسطین میں فلاحی منصوبوں کے لئے دی جانی تھی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے بعد دباو بنانے اور یروشلم کے سلسلہ میں فیصلہ کی سخت مخالفت کرنے پر سزا دینے کی غرض سے فلسطین کے لئے کروڑوں ڈالر کی امداد روک دی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گٹیرس نے امداد میں کٹوتی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکا کو اقوام متحدہ کے ذیلی فلاحی ادارے ’ایجنسی برائے ریلیف اینڈ ورک‘ کو ساڑھے 12 کروڑ ڈالر امداد دینی تھی تاہم امریکا اب صرف 6 کروڑ ڈالر دے گا۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امداد میں کٹوتی کا مقصد فلسطین اور اقوام متحدہ کو سزا دینا نہیں بلکہ امریکا اقوام متحدہ کے اس فلاحی ادارے میں اصلاحات چاہتا ہے، اور اس حوالے سے
مزید بات چیت تک 6 کروڑ 50 لاکھ ڈالر روک لیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ چند دنوں پہلے افسران کے ساتھ میٹنگ میں فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطی میں امن کوششوں کو 'اس صدی کا طمانچہ' قرار دیا تھا۔ فلسطینی رہنماؤں سے ایک ملاقات میں انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ امریکہ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد ان کی جانب سے کسی امن منصوبے کو قبول نہیں کریں گے۔ انھوں نے اسرائیل پر بھی الزام عائد کیا کہ وہ اوسلو سمجھوتے کو بھی ختم کر رہا ہے جس کے تحت 1995 سے امن عمل شروع ہوا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امن مذاکرات معطل کرنے کی صورت میں فلسطینی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا تھا کہ وہ عالمی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن اس پینل میں امریکہ کا کردار نہیں ہونا چاہئے۔ مسٹر عباس نے اعلی افسران کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں ثالثی کے لئے امریکہ کو نااہل قرار دیا گیا ہے۔