انقرہ۔ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ترک دستوں کی پشت پناہی میں لڑنے والے شامی باغیوں نے عفرین کے علاقے سے کرد جنگجوؤں کو مکمل طور پر باہر دھکیل دیا ہے۔سرکاری خبر رساں ادارہ کے مطابق ترک صدر نے شامی علاقہ عفرین پر قبضے کو ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ عسکری کارروائی شمالی شام میں کردوں کے زیر اثر دیگر علاقوں تک بھی پھیل سکتی ہے۔خیال رہے کہ ترک افواج نے اس سے قبل 8 مارچ کو عفرین کے مغرب میں واقع قصبے جندیرس میں بھی قبضہ کرلیا تھا۔
بتادیں کہ ترکی کی جانب سے 20 جنوری کو کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کے خلاف ان کے زیر قبضہ علاقے عفرین میں آپریشن 'اولائیو برانچ' کا آغاز کیا گیا تھا جس کو ترکی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔
عفرین میں جاری اس آپریشن میں ترکی کے 42 فوجی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں تاہم ترک فوج اور شام میں موجود ان کے اتحادیوں نے
کئی علاقوں میں قبضہ کرکے آپریشن میں نئی روح پھونکی ہے۔جندیریس کا قبضہ حاصل کرکے ترکی اور ان کے اتحادی عفرین میں قبضے کے اپنے مقصد کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے راستہ صاف ہو چکا ہے۔
دوسری جانب ترکی کے اس آپریشن سے ان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہوئی ہے کیونکہ جس ملیشیا کے خلاف ترکی کارروائی کررہا ہے وہ ناٹو میں شامل ایک ملک کی اتحادی ہے۔
اردگان نے اپنے پرانے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی اس دہشت گردی اور وائی پی جی کے اثر ورسوخ کو ختم کرنے کے لیے عفرین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا دائرہ کار مشرق میں منبج اور عراقی سرحد تک بڑھا دیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ 'ہم آج عفرین میں ہیں اور کل ہم منبج میں ہوں گے اور اگلے روز ہم عراقی سرحد کے ساتھ ساتھ دریائے فرات سے ملحق علاقوں کو دہشت گردوں سے صاف کریں گے'۔