سوویت یونین کے بعد جس طرح امریکہ سوپر پاؤر بن کر ابھرا تب سے اس نے خود کو دنیاکی قسمت کامالک سمجھناشروع کردیا ۔ سوویت یونین کے بکھرجانے کے بع دکوئی اسے چیلنج دینے والا نہیں رہا۔ امریکہ نے اس بات کوسمجھ لیا کہ اگر اسے اھنہ مطابق دنیاکو چلانی ہے تو مسلم ممالک پر قابو میں کرناہوگا۔ سب سے پہلے اس کی نگاہ عراق پر پڑی جو اس کے مفاادت کی راہ میں سب سے بڑا رخنہ تھا۔ عراق میں جمہوریت کے قیام اورعراقی کو صدام حسین کی گرفت سے آزاد کرانے کے لئے اس نے طرح طرح کے جھوٹ کے قلعے تعمیر کیے او راس کے بعد عراق پر فوجی چڑھائی کردی جس کے نتیجے میں لاکھو ں افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا او ربڑے پیمانے پر تباہی وبربادی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد امریکہ کی نظر میں افغانستان کی طالبان حکومت پر پڑی جس نے اس کی مرضی کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیاتھا ۔ نتیجہ کے طور پر ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر دہشت گردانہ حملے کیاآڑ میں وہ ایک بڑی فوج لے کر افغانستان حملہ کردیا۔ پھر یہاں تباہی او ربربادی کا وہ منظر پیش کیا جسے شائد دنیا نے ابھی تک دیکھا نہیں تھا۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ کی قیادت میں ایک بار پھر یہ دیکھنے میںآرہا ہے کہ دنیا کے مسلمان ایک بار پھر اس کے نشانہ پر ہیں۔
جیسا کہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کو مزیدمستحکم کرنے او ریروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی بنانے کا وعدہ کیاتھا ‘ اقتدار سنبھالنے کے بعد انہو ں نے اسوعدے کو پورا کردیکھا یا۔دوسری جانب امریکہ کی یکسوئی کے نام پر انہو ں نے مسلم ممالک سے آنے والے لوگوں کو ویزا دینے سے منع کردیا۔جس طرح سے نیوکلیائی معاہدہ کے نام پر ایران کی بانہیں مروڑ نے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ مسلم دنیاسے دشمنی کا کھلاہوا ثبوت ہے۔ ایران اس وقت ذاخلی کشمکش کا شکار ہے۔وہاں حکومت کی پالیسی کے خلاف مظاہروں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے تشد کا رنگ اختیار کرنا شروع کردیا ہے۔اب وہ نیوکلیائی معاہدہ کی آڑ میں ایران کے خلاف مزیدتجارتی پابندیاں لگانے کا منصوبہ بنارہا ہے ۔
امریکہ جس طرح سے ایران میں داخلی بے چینی کو ہوا دے رہا ہے اس سے دن بہ دن ایک ٹکراؤ کی صورت حال کے خدشہ سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔ امریکہ کو اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ وہ روس کے ساتھ مل کر شام کی حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت کو سختی سے کچلنے کی کوشش کررہا ہے ۔ یہی نہیں اس نے بڑی
تعداد میں جنگجوؤں کو بھی وہاں بھیجاہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اس بات کا بھی احساس ہے کہ ایران یمن میں بھی وہاں کے باغیوں کی مددکررہا ہے ۔
اس بات کا انکشاف ہوچکاہے کہ یمن سے داغے جانے والے میزائل جن کا نشانہ ریاض اور سعودی سربراہ کے محلات تھے وہ ایران ہی کے بنے ہوئے تھے۔امریکہ کو یہ با ت قطعی‘ برداشت نہیں کہ کوئی بھی ملک اس کے مفادات کے چیلنج کرسکے۔ دراصل امریکہ کا یہ مقصد ہے کہ مسلم ممالک کا ایسا گروپ تیار کیاجائے جو اس خطہ میں اس کے مفادات کا تحفظ کرے۔ ادھر امریکہ کو چین او رپاکستان کی قربت بھی راس نہیںآرہی ہے ۔ وہ اس بات کی کوشش میں ہے کہ ان دنوں ممالک کے درمیان کسی طرح کے دراڑ پیداہوجائے تاکہ وہ جنوبی ایشیاء میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو ختم کرسکیں۔
اس وقت شمالی کوریا کا معاملہ ہویا مشرقی وسطیً کاہرجگہ ایک ٹکراؤ کی صورت حال بنی ہوئی ہے ۔ یہ صورت حال بالکل ویسی ہی ہے جیسی سویت یونین کے زوال کے بعد دیکھنے کو ملی تھی۔ شمالی کوریا او رامریکہ کے درمیان جس طرح سے زبانی جنگ چل رہی ہے وہ کب اصلی جنگ میں تبدیل ہوجائے ‘ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔شمالی کوریا کے حکمراں کم جونگ جہاں ایک طرف انتہا پسندانہ نقطہ نظر رکھتے ہیں وہیں دوسری جانب ڈونالڈ ٹرمپ دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے ایک ایسے شخص ہیں جو اپنے نظریات میں انتہائی پسند اورجذباتی ہیں۔ وہ امریکی پرستی کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
لیکن یہاں یہ بات غور کرنے کی ہے کہ مسلم ممالک کے تعلق سے ڈونالڈ ٹرمہ کا نظریہ یہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل جارج ڈبلیو بش عراق کے خلاف برسرپیکار تھے تو انہو ں نے اس جنگ کو کروسیڈ بتایاتھا او رامریکیوں کی ہمدردی حاصل کرلی تھی۔ اس لئے ٹرمپ کے بارے میںیہ کہنا کہ وہ غیرمتوازن رویہ رکھتے ہیں او ران کے انتہا پسندانہ بیانات اور اقدامات حیران کرنے والے ہیں‘ زیادہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ امریکی صدر جو بولتا ہے اور بیان دیتا ہے وہ امریکہ کی طئے شد ہ پالیسی کا حصہ ہوتا ہے۔اگر ڈونالڈ ٹرمپ امریکی مفادات کو تمام دوسری باتوں پر ترجیح دیتے ہی تو یہ امریکی عوام کی سوچ کے عین مطابق ہے جس نے ٹرمپ کو منتخب کرکے صدر کے عہدہ تک پہنچایا۔ جس طرح سے ہرطرف ایک ٹکراؤ کی صورت حال بنی ہوئی ہے اس سے یہ خدشہ ضرور لگتا ہے کہ کچھ کمزور ممالک کو ایک مرتبہ پھر اس کی بڑی قیمت چکانی پڑے ۔