شام کے شہر غوطہ کے مشرقی علاقے میں شامی حکومت کے حامی روس کی جانب سے عائد کردہ پانچ گھنٹہ دورانیے کی جنگ بندی کے باوجود گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا۔
اس کے نتیجے میں باغیوں کے زیرِ قبضہ اس شہر میں اقوامِ متحدہ نہ تو امداد پہنچا سکی اور نہ ہی وہاں سے کسی بیمار یا زخمی شخص کو علاج کے لیے نکالا جا سکا۔
دمشق کے قریب واقع اس شہر میں تین لاکھ 93 ہزار لوگ گھر کر رہ گئے ہیں۔ سرکاری افواج نے 2013 سے اس شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
طبی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ نو روز قبل لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک پانچ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق منگل کو کم از کم چھ عام شہری مارے گئے۔ ان میں سے دو عین پانچ گھنٹے کی جنگ بندی کے وقفے کے دوران ہلاک ہوئے۔
روسی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ مشرقی غوطہ میں باغیوں نے وقفے کے دوران حملہ کر دیا اور دو جگہوں پر سرکاری فوج کے ٹھکانوں کو ہدف بنایا۔
فرانس اور برطانیہ نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ شامی صدر بشار الاسد پر اپنا اثر و
رسوخ استعمال کر کے تمام ملک میں 30 روزہ جنگ بندی پر عمل کروائے۔
ہفتے کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے فریقین سے 30 روزہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔
جب منگل کو صبح نو بجے روس کی جانب سے عائد کردہ جنگ بندی کا وقفہ شروع ہوا تو جنگ چھڑ گئی۔
اقوامِ متحدہ کے حکام کے مطابق اس کے باعث امدادی کاروان شہر میں داخل نہیں ہو سکے اور نہ ہی وہاں سے کسی زخمی و بیمار کو نکالا جا سکا۔
عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ غوطہ میں ایک ہزار شدید بیمار افراد موجود ہیں جنھیں فوری طور پر علاج کے لیے شہر سے باہر لے جایا جانا ضروری ہے۔
سیریئن آبزرویٹری نے جنگ بندی کے وقفے کی کئی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اسی دوران سرکاری فوج کے ہیلی کاپٹروں اور جہازوں نے جسرین قصبے پر بمباری کی جس سے ایک بچے سمیت دو افراد ہلاک ہو گئے۔
دوسری جانب شام کے سرکاری خبر رساں ادارے سانا نے کہا ہے کہ 'دہشت گردوں' نے سرکاری چوکیوں پر گولے داغے اور وہ انسانی ڈھالیں استعمال کر رہے ہیں۔