سری لنکا کے صدر نے قانونی طور پر شراب خریدنے کے لیے خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق دیے جانے کی ایک کوشش کو مسترد کر دیا ہے۔
صدر میتھری پال سری سینا نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے حکومت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس اصلاح کو واپس لے لے جس کے تحت خواتین بھی بغیر پرمٹ کے بارز میں کام کر سکتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ انھیں ایسی کسی پیش قدمی کے بارے میں اخبار سے اطلاع ملی تھی۔
حکومت نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ وہ سنہ 1955 کے ایک قانون میں ترمیم کر رہی ہے کیونکہ یہ خواتین کے مساوی حقوق کے مخالف ہے۔
ناقدین نے صدر کو صنفی مساوات کو سنجیدگی سے نہ لینے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
سری لنکا کے ایک بلاگر نے لکھا: 'یہ صرف صنفی تعصب پر مبنی فرسودہ قانون کی بات نہیں بلکہ یہ پرانے صنفی تعصبات والے نظام کی بات ہے جس میں یہ کنٹرول کا ایک اور حربہ ہے۔'
ہر چند کے پرانے قانون پر سختی سے عمل نہیں ہوتا تھا
تاہم سری لنکا کی خواتین نے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا تھا کیونکہ اس کے تحت 60 سال میں پہلی بار 18 سال سے زیادہ عمر کی خواتین قانونی طور پر شراب خرید سکتی تھیں۔
خیال رہے کہ بودھ مذہب کی اکثریت والے ملک میں بودھ بھکشوؤں نے اس کے متعلق پابندی کے ہٹائے جانے کی یہ کہتے ہوئے تنقید کی تھی کہ یہ اقدام سری لنکا کی خاندانی ثقافت کو برباد کر دے گا اور زیادہ خواتین کو شراب نوشی کی لت لگ جائے گی۔
صدر سری سینا نے کہا کہ انھوں نے حکومت کے اقدام کی تنقید سنی ہے اور حکومت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ پابندی ہٹانے کے اپنے نوٹیفیکیشن کو واپس لے۔
بہت سے لوگوں کے لیے ان کا یہ اعلان باعث حیرت نہیں تھا کیونکہ وہ شراب نوشی کے خلاف مہم چلانے کے لیے جانے جاتے ہیں اور انھوں نے ماضی میں سری لنکا کی خواتین کے شراب پینے پر متنبہ کرتے ہوئے کہا اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اصلاح کا اچانک مسترد کیا جانا بتاتا ہے کہ حکومت میں اختلاف رائے ہے۔