نئی دہلی ۱۲ جون [یو این آئی] گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار اوراردو کے کہنہ مشق شاعر آنند موہن زتشی ‘گلزار دہلوی کا آج بروز جمعہ انتقال ہو گیا وہ کوویڈ 19 سے متاثر ہوگئے تھے صحت یابی کے پانچ روز کے بعد آج دو پہر کا کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد ہی انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
اپنے گھر واقع نوئیڈا میں ہی انہوں نے آخری سانس لی۔ وہ 94 برس کے تھے۔
کنبے کے ذرائع نے بتایا کہ ان کا کرونا ٹیسٹ سات جون کو منفی آگیا تھا جس کے بعد انہیں اہل خانہ گھر لے گئے تھے۔
ڈاکٹروں کے حوالے سے اہل خانہ نے بتایا کہ انفیکشن کی وجہ سے وہ کافی کمزور ہو گئے تھے۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ حرکت قلب بند ہونے ان کی موت واقع ہوئی ہو۔
پدم شری گلزار دہلوی 1926 میں پرانی دہلی کے گلی کشمیریان میں پیدا ہوئے تھے ، وہ 'سائنس کی دنیا' 'کے ایڈیٹر بھی تھے ، جو 1975 میں حکومت ہند کے ذریعہ
شائع ہونے والا پہلا اردو سائنسی رسالہ تھا۔ انجمن تعمیر اردو کے بانی اور صدر گلزار دہلوی 1930 میں جنگ آزادی کی تحریک میں اس وقت شامل ہوئے تھے جب وہ اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ اس کے بعد انہوں شاعری میں خوب شہرت حاصل کی۔ گلزار دہلوی ابھی پچھلے سال تک مشاعروں میں کلام سناتے نظر آئے تھے۔
مارچ 2011 کو نئی دہلی میں ان کا شعری مجموعہ کا اجرا ہوا۔ جس میں نائب صدر جناب حامد انصاری شریک رہے۔ اس جلسہ میں محمد یونس میموریل کمیٹی نے تحفہ میں ایک چیک، سپاس نمہ اور دوشالے سے نوازا تھا۔ ۲۰۰۹ میں وہ میر تقی میر ایوارڈ سے سرفراز کئے گئے تھے۔
مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع نے نے کہا کہ گلزار دہلوی کی موت کے ساتھ ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں تک محفلوں کی جان ہوا کرتے تھے اور ملک کی مشترکہ تہذیب کی پاسداری کا وہ عملی نمونہ تھے۔