رمله ۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا کہ وہ عالمی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن اس پینل میں امریکہ کا کردار نہیں ہونا چاہئے۔ مسٹر عباس نے اعلی افسران کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں ثالثی کے لئے امریکہ کو نااہل قرار دیا گیا ہے۔ ادھر، اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں امریکہ کی ثالثی کا خیر مقدم کرے گا لیکن ٹرمپ کے مشیر اور ان کے داماد جیراڈ كشنر کی قیادت والی مذاکرات کمیٹی نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ خیال رہے کہ 2014 کے بعد سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہو پائی ہے۔
افسران کے ساتھ میٹنگ میں فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطی میں امن کوششوں کو 'اس صدی کا طمانچہ' قرار دیا ہے۔ فلسطینی رہنماؤں سے ایک ملاقات میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ امریکہ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد ان کی جانب سے کسی امن منصوبے کو قبول نہیں کریں گے۔ انھوں نے اسرائیل پر بھی الزام عائد کیا کہ وہ اوسلو سمجھوتے کو بھی ختم کر رہا ہے جس کے تحت 1995 سے امن عمل شروع ہوا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امن مذاکرات معطل کرنے کی صورت میں فلسطینی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔
right;">
فلسطینی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرکے امریکہ ایک غیر جانب دار مذاکرات کار نہیں بن سکتا۔ فلسطینی رہنماؤں نے رملہ میں دو دن ملاقات کی اور اس کے بعد صدر ٹرمپ کے اقدام کا جواب دیا۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے امریکی فیصلے پر مذمت کے حوالے سے رائےشماری کے بعد محمود عباس پہلے ہی اس ماہ کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کو مسترد کر چکے ہیں۔ رملہ میں دیگر فلسطینی رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا-’ ’اس صدی کا یہ معاہدہ در اصل اس صدی کا طمانچہ ہے جسے ہم قبول نہیں کریں گے۔ ‘ میں کہہ رہا ہوں کہ کوئی اوسلو (سمجھوتہ) نہیں رہا، اسرائیل نے اسے ختم کر دیا ہے۔‘ واشنگٹن کچھ ماہ سے ایک امن معاہدے کا مسودہ تیار کر رہا ہے لیکن اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
اتوار کو محمود عباس نے بتایا کہ انہیں یروشلم سے باہر ایک گاؤں ابو دیس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی پیش کش کی گئی ہے۔ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں اس 'مقدس' شہر پر اپنا دعویٰ پیش کرتے ہیں اور اس کا تنازع بہت پرانا ہے۔ یروشلم اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ بھی ہے۔ یہ شہر مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحیوں تینوں کے نزدیک اہمیت کا حامل ہے۔