پاکستان سپریم کورٹ پاناما کیس کا فیصلہ جمعہ کو یعنی آج سنانے جا رہی ہے. یہ کیس پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور پاکستان کی سیاست کے لئے کافی اہمیت رکھتا ہے. دراصل اس معاملے میں نواز شریف سمیت ان کے خاندان پر کالا دھن چھپانے، کرپشن اور منی لاڈرگ کے الزامات ہیں. ان حالات میں اگر نواز شریف کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو ان کو اپنی کرسی چھوڑنی بھی پڑ سکتی ہے اور ان کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے. اس صورتحال میں پاکستان کی سیاست میں بھونچال ہو سکتا ہے اور فوج ایک بار پھر مضبوط حالت میں آ سکتی ہے.
اس سے پہلے 21 جولائی کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے پانامہ کاغذات معاملے میں فیصلہ محفوظ رکھ لیا. جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین ججوں کی بچ نے اپنا فیصلہ سنانے کے لئے فوری طور پر کوئی تاریخ مقرر نہیں کی. حمایت کردی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عزاجل احسن شامل ہیں.
جسٹس سعید نے کہا کہ عدالت اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کسی قانون سے انحراف نہیں ہوگی. '' ہم درخواست گزاروں اور مدعا علیہان کے بنیادی حقوق سے آگاہ ہیں. '' سپریم کورٹ نے دس
طبقات والی رپورٹ کا آخری حصہ بھی کھولی جسے متحدہ تفتیشی ٹیم (جےايٹي) نے داخل کی تھی. سپریم کورٹ نے شریف اور ان کے خاندان پر لگے منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کے لئے جےايٹي قائم کی تھی.
جےايٹي نے کہا تھا کہ رپورٹ کا دسواں حصے کو خفیہ رکھا جائے کیونکہ اس میں دوسرے ممالک کے ساتھ خط و کتابت کی تفصیلات ہے. شریف کے وکلاء کی ٹیم نے اس پر اعتراض جتایا تھا. عدالت نے حکام کو حکم دیا کہ طبقہ کی ایک کاپی شریف کے وکیل خواجہ حارث کو سونپی جائے.
دفاعی طرف کی دلیلوں کا جواب دینے کے آپ کے حق کا استعمال کرتے ہوئے درخواست گزاروں نے اپنی مختصر تبصرہ میں عدالت سے گزارش کی کہ مبینہ طور پر جائیداد چھپانے اور اپنے بچوں کے کاروبار قائم کرنے میں استعمال ہوئے آمدنی کے ذریعہ ظاہر نہ کرنے پر شریف کو ناقابل قرار دیا جائے.
شریف کے خلاف درخواست گزاروں میں شامل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے وکیل نے دلیل دی، '' منی لانڈرنگ کے الزامات کا اطمینان بخش جواب دینے میں وزیر اعظم ناکام رہے ہیں اور انہیں نااہل قرار دینا چاہئے. ''