ذرائع
تل ابیب:اسرائیل اور حماس کے درمیان حملے شروع ہوکر ڈھائی ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے اسرائیل کی مہم طویل ہوتی جا رہی ہے، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف ان کے اپنے ملک میں بھی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔ پیر کو بنجمن نیتن یاہو اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے تھے، اس دوران یرغمالیوں کے لواحقین نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور یرغمالیوں کی جلد از جلد رہائی کا مطالبہ کیا۔
یرغمالیوں کے لواحقین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر یرغمالیوں کی تصاویر اور نام تحریر تھے۔ نیتن یاہو حال ہی میں غزہ سے واپس آئے ہیں اور انہوں نے پیر کو پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں
کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے آپریشن میں مزید وقت لگے گا۔ اس پر یرغمالیوں کے اہل خانہ نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور ان کے اہل خانہ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ یرغمالیوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ہم نے ان کے پیاروں کو واپس لانے کے لئے حکومت پر بھروسہ کیا لیکن 80 دن گزر چکے ہیں اور ہر منٹ جہنم کی طرح گزر رہا ہے۔
لوگوں نے استفسارکیاکہ اگر ان کے اپنے بچے بھی یرغمال ہوتے تو کیا حکومت اتنا وقت لے لیتی؟ جبکہ نیتن یاہو نے کہا کہ ان کی حکومت مغویوں کو واپس لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ 129 اسرائیلی یرغمالی اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔ ان میں سے 22 کے مارے جانے کی اطلاع ہے جن کی لاشیں بھی غزہ میں موجود ہو سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 107 افراد اب بھی حماس کی قید میں ہیں اور رہائی کے منتظر ہیں۔