سری نگر، 16 جولائی (یو این آئی) نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے سوالیہ انداز میں کہا ہے کہ وادی کشمیر میں پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کے بعد اب ملی ٹنسی بڑھ رہی ہے یا کم ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کو ملی ٹنسی کے خاتمے کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا وہیں اب فور جی موبائل انٹرنیٹ پر جاری پابندی کو ملی ٹنسی کے واقعات میں اضافے کے پیش نظر ناگزیر بتایا جارہا ہے۔
بتادیں کہ عدالت عظمیٰ میں جموں وکشمیر میں فور جی موبائل انٹرنیٹ کی بحالی کے لئے زیر سماعت کیس کے حوالے سے اٹارنی جنرل نے مبینہ طور پر دعویٰ کیا ہے کہ وادی میں ملی ٹنسی کے واقعات میں اضافے کے پیش نظر تیز رفتار انٹرنیٹ پر پابندی جاری رکھنا ضروری ہے۔
عمر عبداللہ نے اس کے رد عمل میں اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: 'کتنا آسان ہے!
پانچ اگست 2019 کو یہ کہتے ہوئے جواز بخشا گیا کہ کشمیر میں دہشت گردی / ملی ٹنسی کا خاتمہ ہوگا جبکہ فور جی موبائل انٹرنیٹ پر جاری پابندی کا یہ کہتے ہوئے جواز پیش کیا جاتا ہے کہ کشمیر میں ملی ٹنسی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب کیا ہورہا ہے، ملی ٹنسی بڑھ رہی یا کم ہورہی ہے'۔
قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت کے سال گذشتہ کے پانچ اگست کے دفعہ 370 و دفعہ 35 اے کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے بعد جموں وکشمیر میں تمام تر مواصلاتی خدمات منقطع کردی گئی تھیں جنہیں بعد میں رفتہ رفتہ بحال تو کیا گیا لیکن فور جی موبائل انٹرنیٹ خدمات پر پابندی ہنوز جاری ہے۔
کورونا لاک ڈاؤن کے بیچ فور جی موبائل انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی کی وجہ سے وادی کے مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں بالخصوص صحافیوں اور طلبا کے مشکلات مزید دو چند ہوگئے ہیں۔