پاکستان کے صوبہ پنجاب کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ زینب کو اغوا کرنے والے مبینہ شخص کا خاکہ جاری کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ زینب کی لاش ان کے اغوا کے پانچ روز بعد نو جنوری کو ان کی رہائش گاہ سے دو کلومیٹر دور موجود کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ پولیس نے درجنوں مشکوک افراد کو گرفتار کر کے ان کا ڈی این اے لیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب کو طلب کر رکھا ہے جو ممکنہ طور پر دن ساڑھے بارہ بجے عدالت میں پیش ہو کر اب تک کی رپورٹ پیش کریں گے۔
قصور میں متعلقہ تھانے اے ڈویژن سٹی کے آئی او افتخارنے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ یہ خاکہ اس کیس کی تحقیقات میں شامل اداروں کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔
margin: 18px 0px 0px; padding: 0px; vertical-align: baseline;">ان کا کہنا تھا کہ ’خاکہ بھی جاری ہوا ہے اور ویڈیو کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں۔ دراصل اس کیس میں متخلف ٹیمیں ہیں جو مختلف ٹاسک سرانجام دے رہی ہیں۔‘
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ انٹیلیجنس ادارے زینب کے لواحقین کے علاوہ اس سال میں اغوا اور ریپ کا شکار ہونے والے 12 بچوں کے اہلخانہ سے رابطہ کر رہے ہیں۔
جولائی 2017 میں اغوا کے کچھ ہی دیر بعد ریپ کا شکار ہو کر قتل کی جانے والی بچی کے ماموں مقصود محسن نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ روز انھیں انٹیلیجنس ادارے کے ایک کرنل نے رابطہ کر کے کہا تھا کہ بچی کے والد کو ملاقات کا پیغام دیں۔
پولیس کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی جانب سے معاملے کی تحقیقات جاری ہیں تاہم ابھی تک کسی بڑی پیش رفت کی تصدیق نہیں سکی۔
ابتدا میں پولیس حکام کہنا تھا کہ قصور شہر میں اغوا اور جنسی تشدد کے بعد بچوں کے قتل میں مبینہ طور پر ایک ہی شخص ملوث نظر آتا ہے۔