نئی دہلی، 20جنوری (یو این آئی۔ عابد انور) قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کشمیری پنڈتوں نے کہاکہ آپ کے درد کے دیکھ ہمیں اپنا درد یاد آگیا اور آپ کے درد میں ہم برابر کے شریک ہیں۔یہ کشمیری پنڈت ایک افواہ’جشن شاہین‘کی وجہ سے آئے تھے لیکن جیسے ہی یہاں کا نظارہ دیکھا ان کا ارادہ بدل اور نظریہ بدل گیا۔
انہوں نے کہاکہ آج ہی کے دن (19جنوری 1990)میں کشمیری پنڈتوں کو وادی سے نکالا گیا تھا۔ آج تک کسی حکومت نے ہمارے مسئلہ کو حل نہیں کیا ہے ہم لوگ جس تکلیف سے گزر رہے ہیں وہی تکلیف میں آپ کو دیکھ رہے ہیں اس لئے ہم لوگ آپ کے غم میں شریک اور آپ سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں وہاں اجڑے ہوئے 30برس ہوگئے لیکن آج تک ہمیں کسی حکومت نے وہاں بسانے کی کوشش نہیں کی۔
شاہین باغ میں اہم شخصیات کی آمد کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ پنجاب سے سکھوں کا دستہ جس میں پنجاب کے سابق کابینی وزراء ڈپٹی اسپیکر، سابق رکن پارلیمنٹ اور
سماج کے دیگر شعبہ سے اہم لوگ شامل تھے آکر شاہین باغ خواتین کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مکمل ساتھ دینے اور کاندھا سے کاندھا ملاکر کھڑا ہونے کا یقین دلایا۔ اتوار ہونے کی وجہ سے شاہین باغ میں بھیڑ کافی تھی۔کئی فنکاروں، سماجی کارکنوں نے اس میں حًصہ لیا۔جامعہ نگر سے کئی جلوس، جس میں کینڈل مارچ بھی شامل تھا، آکر شاہین باغ میں شامل ہوئے۔
شاہین باغ مظاہرین کی حمایت کرنے کے لئے پوری دہلی سے سماج کے ہر طبقے کے لوگ آرہے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات آکر اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ شاہین باغ خواتین مظاہرہ گنگا جمنی تہذیب اور مشترکہ اقدار و تہذیب کا سنگم نظر آتا ہے۔ کیا، ہندو، کیا مسلمان، کیا سکھ، کیا عیسائی سب لوگوں کی موجودگی نظر آتی ہے اور سبھی طبقے کے لوگ یہاں اپنا تعاون پیش کرتے نظر آرہے ہیں، سڑکوں پر پینٹنگ، تختی بنانے، رخساروں پر ترنگا بنانے، مختلف نعرے لکھنے میں سب لوگ اپنا تعاون پیش کر رہے ہیں۔ یہاں انڈیا گیٹ بھی ہیں اور ہندوستان کا نقشہ بھی ہے۔