فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطی میں امن کوششوں کو 'اس صدی کا طمانچہ' قرار دیا ہے۔
فلسطینی رہنماؤں سے ایک ملاقات میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ امریکی کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد ان کی جانب سے کسی امن منصوبے کو قبول نہیں کریں گے۔
انھوں نے اسرائیل پر بھی الزام عائد کیا کہ وہ اوسلو سمجھوتے کو بھی ختم کر رہا ہے جس کے تحت 1995 سے امن عمل شروع ہوا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امن مذاکرات معطل کرنے کے صورت میں فلسطینی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔
فلسطینی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرکے امریکہ ایک غیر جانب مذاکرات کار نہیں بن سکتا۔
فلسطینی رہنماؤں نے رملہ میں دو دن ملاقات کی اور اس کے بعد صدر ٹرمپ کے اقدام کا جواب دیا۔
اقوامِ متحدہ کی جانب سے امریکی فیصلے پر مذمت کے حوالے سے رائےشماری کے بعد محمود عباس پہلے ہی اس ماہ کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کو مسترد کر چکے ہیں۔
رملہ میں دیگر فلسطینی رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’اس صدی کا یہ معاہدہ در اصل اس صدی کا طمانچہ ہے جسے ہم قبول نہیں کریں گے۔ ‘
میں کہہ رہا ہوں کہ کوئی اوسلو (سمجھوتہ) نہیں رہا، اسرائیل نے اسے ختم کر دیا ہے۔‘
واشنگٹن کچھ ماہ سے ایک امن معاہدے کا مسودہ تیار کر رہا ہے لیکن اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
اتوار کو محمود عباس نے بتایا کہ انہیں یروشلم سے باہر ایک گاؤں ابو دیس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی
پیش کش کی گئی ہے۔
اسرائیلی اور فلسطینی دونوں اس 'مقدس' شہر پر اپنا دعویٰ پیش کرتے ہیں اور اس کا تنازع بہت پرانا ہے۔
یروشلم اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ بھی ہے۔ یہ شہر مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحیوں تینوں کے نزدیک اہمیت کا حامل ہے۔
پیغمبر حضرت ابراہیم سے اپنا سلسلہ جوڑنے والے تینوں مذاہب یروشلم کو مقدس مقام کہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے اس شہر کا نام مسلمان، یہودیوں اور مسیحیوں کے دلوں میں آباد ہے۔ یہ شہر عبرانی زبان میں یروشلایم اور عربی میں القدوس کے نام سے معروف ہے جبکہ یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔
اس شہر پر کئی بار قبضہ کیا گیا، مسمار کیا گیا اور پھر سے آباد کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ اس سرزمین کی تہوں میں ایک تاریخ موجود ہے۔
شہر کے مرکز میں ایک قدیمی شہر ہے۔ تاریخی فن تعمیر کے نمونے سے مالا مال بھول بھلیاں جیسی تنگ گلیوں کے درمیان یہ چار حصوں مسیحی، اسلامی، یہودی اور ارمینیائی میں منقسم ہے۔
اس کے چاروں جانب دیوار ہے جس کے اندر دنیا کے بہت سے مقدس مقامات ہیں۔ اور ہر حصے کی اپنی مخصوص آبادی ہے۔
یادہ تر اسرائیلی یروشلم کو غیر منقسم اور بلا شرکت غیرے اپنا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں۔ اسرائیل کا ایک ملک کے طور پر سنہ 1948 میں قیام عمل میں آیا تھا۔ اس وقت اسرائیلی پارلیمنٹ کو شہر کے مغربی حصے میں قائم کیا گیا تھا۔ جبکہ سنہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر بھی قبضہ کر لیا۔
اس کے ساتھ قدیمی شہر بھی اسرائیل کے قبضے میں آ گیا لیکن بین الاقوامی سطح پر اس کے قبضے کو تسلیم نہیں کیا گیا۔