عراق میں ایک عدالت نے کم از کم 15 ترک خواتین کو شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا سنا دی ہے۔
چند خبروں کے مطابق پھانسی کی سزا 16 خواتین کو سنائی گئی ہے جبکہ ایک کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔
ان خواتین نے تسلیم کیا تھا کہ انھوں نے دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے شادیاں کی اور انھیں 'انتظامی مدد اور دہشت گرد حملے کرنے میں مدد دی۔'
واضح رہے کہ عراق اور شام میں کئی ہزار غیر ملکی باشندوں نے دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی اور ان کے لیے جنگ میں حصہ لیا۔
عراقی حکومت نے دسمبر میں باضابطہ طور اعلان کیا تھا کہ دولت اسلامیہ کے ساتھ جنگ کا اختتام ہو چکا ہے۔ گو کہ شدت پسند تنظیم کو اس کے مرکزی گڑھوں سے نکالا جا چکا ہے، تنظیم کے شدت پسند ابھی بھی خود کش حملے کرنے میں مصروف ہیں۔
سزا پانے والی خواتین کی عمریں 20 سے 50 سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں اور بغداد کی عدالت میں انھوں نے کالے کپڑوں میں پیشی دی۔ ان میں سے چار خواتین کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے۔
ایک خاتون نے جج کو بتایا کہ اس نے شدت پسندوں کے شانہ بشانہ
عراقی فوج کے ساتھ لڑائی کی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عراق میں کم از کم 560 خواتین اور 600 بچوں کو دولت اسلامیہ کے ساتھ منسلک ہونے کے الزام میں حراست میں لیا جا چکا ہے اور ان میں سے کئی پر مقدمے چل رہے ہیں۔
گذشتہ سال موصل کی جنگ سے گرفتار ہونے والی ایک جرمن خاتون کو اس سال جنوری میں دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے کے سبب موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے عراقی فوجوں پر کیے جانے والے حملوں میں حصہ لیا تھا۔
اس ماہ کے اوائل میں بھی ایک ترک خاتون کو موت کی سزا اور دس کو عمر قید دی گئی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے عدالتی کاروائی پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ یہ مقدمات انصاف کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے۔
دوسری جانب سزا یافتہ خواتین کے وکلا کہتے ہیں کہ ان خواتین کو جھانسہ دلا کر دولت اسلامیہ کے زیر انتظام علاقوں میں لے جایا گیا تھا۔
سزا یافتہ خواتین کے پاس اپیل کرنے کے لیے ایک ماہ کی مدت ہے۔
یاد رہے کہ عراقی قوانین کے تحت دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے کی سزا موت ہے۔