اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کو ایران میں گذشتہ دنوں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں پر تبادلۂ خیال کے لیے امریکی درخواست پر اجلاس بلایا ہے۔
دوسری جانب روس کے مقامی ذرائع ابلاغ نے وزیر خارجہ کے حوالے سے کہا ہے کہ ماسکو ایران کے مسئلے پر بحث کے لیے بلائے جانے والے سلامتی کونسل کے غیر معمولی اجلاس کی امریکی تجویز کو ’نقصان دہ اور تباہ کن‘ سمجھتا ہے۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ سلامی کونسل کے دیگر ارکان اس اجلاس کو پروسیجرل ووٹ کے ذریعے بلاک کرنے کی کوشش کریں گے یا نہیں۔
ادھر امریکہ نے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں مالی مدد فراہم کرنے والی پانچ کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ کمپنیاں ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں مالی مدد کر رہی ہیں۔
ان پابندیوں کے تحت ایرانی کمپنیوں کی امریکہ میں موجود کسی بھی جائیداد کو منجمند کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے امریکیوں کو ان کمپنیوں کے ساتھ کسی بھی ڈیل کرنے سے منع کر دیا گیا۔
امریکی وزیر خزانہ سٹیون منوشن نے اس تحریک کو ایران میں حالیہ احتجاج سے پھیلنے والے اقتصادی مسائل سے منسلک کیا ہے۔
انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم ایرانی حکومت کی اقتصادی بد انتظامیوں کو ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔‘
right;">بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ پابندیاں ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں ملوث اہم اداروں پر مبنی ہیں جنھیں ایرانی حکومت عوام کی معاشرتی خوشحالی پر فوقیت دیتی ہے۔‘
امریکی وزیرِ خزانہ نے ایرانی حکومت پر الزام لگایا کہ ’وہ اپنے شہریوں کے پیسوں کو خطرناک میزائل سسٹم پر خرچ کر رہا ہے۔‘
امریکی وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ جن پانچ کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے وہ ایران کے شاہد بیکری انڈسٹریل گروپ کی ماتحت ہیں جو بیلسٹک میزائلوں کو بنانے کی ذمہ دار ہے۔
جن پانچ ایرانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان کے نام یہ ہیں:
1 دی شایداسلامی ریسرچ سینٹر
2 شاہد کرزئی انڈسٹریز
3 شاہد موغادھم انڈسٹریز
4 شاہد سنخانی انڈسٹریز
5 شاہد شستری انڈسٹریز
امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے گذشتہ سال ٹیسٹ کیے جانے والے بیلسٹک میزائل اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کے منافی ہیں جس کے تحت ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سنہ 2015 میں معاہدہ ہوا تھا۔
تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس نے جو میزائل تجربہ کیا تھا وہ جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے۔