نئی دہلی 14 نومبر [یو این آئی] دیوالی/دیپاولی اور عید چراغاں کے ناموں سے معروف روشنیوں کا یہ ایک قدیم تیوہار ہے جسے برصغیر کے علاوہ ماریشس، سری لنکا، میانمار، گیانا، ٹرینیڈاڈ و ٹوبیگو، سرینام، ملایشیا، سنگاپور ، نیپال اور فجیسمیت دنیا کے کئی ملکوں میں انتہائی تزک و احتشام کیساتھ منایا جاتا ہے۔
موسم بہار میں منایا جانیوالا عید چراغان کا یہ تیوہار روحانی اعتبار سے اندھیرے پر روشنی کی، نادانی پر عقل کی، بُرائی پر اچھائی کی اور مایوسی پر اُمید کی فتح و کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اس تیوہار کی تیاریاں 9 دن پہلے سے شروع ہوجاتی ہوتی ہیں اور دیگر رسومات مزید 5 دن تک جاری رہتے ہیں۔ اصل تیوہار اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔ اصل تہوار شمسی-قمری تقویم کے مہینہ کارتیک میں اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔ گریگورین تقویم کے مطابق یہ تہوار وسط اکتوبر اور وسط نومبر میں پڑتا ہے۔دیوالی کی رات سے پہلے عقیدتمند اپنے گھروں کی مرمت، تزئین و آرائش
اور رنگ و روغن کرتے ہیں اور دیوالی کی رات کو نئے کپڑے پہنتے ہیں، دیئے جلاتے ہیں، کہیں روشن دان، شمع اور کہیں مختلف شکلوں کے چراغ جلائے جاتے ہیں، یہ دیئے گھروں کے اندر اور باہر، گلیوں میں بھی رکھے ہوتے ہیں۔دولت و خوشحالی کی دیوی لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے اور پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں۔ بعد ازاں سارے خاندان والے اجتماعی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور خوب مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے اور تحفے تحائف تقسیم کئے جاتے ہیں۔ برصغیر کے کئی علاقوں میںیہ تیوہار دھنتیرس سے شروع ہوتا ہے جس کا پانچواں دن بھیا دوج بھائی بہن کے رشتوں لیے مخصوص ہے، اس پر یہ تیوہار ختم ہوجاتا ہے۔ عام طور پر دھنتیرس، دسہرا کے اٹھارہ دن بعد پڑتا ہے۔دیوالی کی رات ہیجین پیروکار مہاویر کے موکش (نجات) پانے کی خوشی میں جشنِ چراغاں دیوالی مناتے ہیں، سکھ پیروکار اس تہوار کو بندی چھوڑ دیوس کے نام سے مناتے ہیں۔ برصغیرمیں عید، ہولی اور دیوالی قومی تیوہار کے طور سب لوگ بلا تفریق مذہب و ملت مناتے آرہے ہیں۔