نئی دہلی، 19 جون (یو این آئی) جمعیۃ علماء ہند یکساں سول کوڈ کی مخالف ہے، کیونکہ یہ آئین میں شہریوں کو دفعہ 26, 25 میں دی گئی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے سراسر منافی ہے۔ یہ بات جمعیۃ علمائے ہند کی منظور کر دو یکساں سول کوڈ کے تعلق سے قرار داد میں کہی گئی ہے۔ اس کے ساتھ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام ہندوستانیوں کا
ہے۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے دستور میں سیکولرزم کے معنی یہ ہے لیکہ ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے یہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتا ہے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا ہے اور ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں کہ جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے امن اور پچھیتی کے ساتھ رہتے آئے ہیں وہاں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات انتہائی حیرت انگیز ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک خاص فرقہ کو ذہن میں رکھ کر اکثریت کو میں درج ہے جس کا نفاذ لازمی نہیں ( بلکہ ایک مشورہ ہے )، اس کی آڑ لی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ IV گمراہ کرنے کے لئے آئین کی دفعہ 44 جو کہ دستور ہند کے رہنما اصولوں کے باب بات تو آئین میں کہی گئی ہے ، حالانکہ خود آر آر ایس کے دوسرے سر سنچالک گرو گول والکر نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ بھارت کے لئے
غیر فطری اور اس کے تنوعات کے منافی ہے“۔ حقیقت یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کی بات رہنما ہدایات کے ضمن میں کہی گئی ہے (مشورہ دیا گیا ہے ) وہیں شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے آئین کے باب ۳ کے تحت درج بنیادی دفعات میں کسی بھی ادارہ کو خواہ وہ پارلمنٹ ہو یا سپریم کورٹ تبدیلی کا اختیار نہیں ہے، آئین تو آزادی کے بعد تیار ہوا جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں سے اس ملک میں لوگ اپنے اپنے مذہبی اصول پر عمل پیرا رہے ہیں لوگوں کے مذہبی عقائد اور رواج مختلف رہے ہیں مگر ان میں کبھی کوئی اختلاف یا کشیدگی پیدانہیں ہوئی، در حقیقت ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ یہ کہہ کر اکثریت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کی بات آئین کا حصہ ہے جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے ، ملک میں قانون و انتظام کی صور تحال کو برقرار رکھنے کے لئے تعزیرات ہند کی دفعات موجود ہیں ان کے تحت ہی مختلف جرائم کے لئے سزائیں دی جاتی ہیں اور ان کے دائرہ میں ملک کے تمام شہری آتے ہیں، البتہ ملک کی اقلیتوں، قبائل اور بعض دوسری برادریوں کو مذ ہبی و سماجی قانون کے تحت آزادی دی گئی ہے کیونکہ مذہبی خاندانی و سماجی ضابطوں سے ہی مختلف مذہبی برادریوں اور گریوں کی شناخت وابستہ ہیں اور یہی ملک کی پیجہتی، سالمیت اور اتحاد کی بنیاد ہے، یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔