عدالتوں کی طرف سے اس غیر مناسب قانون پر غور و خوض کو مؤخر کیا جانا عدالتی وقار کے خلاف
نئی دہلی، 20دسمبر(یو این آئی) قومی اقلیّتی کمیشن کے سابق سربراہ اور لا کمیشن آف انڈیا کے سابق رکن پروفیسر طاہر محمود نے کہا ہے کہ شہریت سے متعلّق ملکی قانون مجریہ 1955 میں جو تبدیلیاں حال ہی میں کی گئی ہیں انھوں نے اس قانون کو متعلّقہ بین الاقوامی قوانین سے پوری طرح متصادم کر دیا ہے نئے شہریت ایکٹ پر یواین آئی سے گفتگو کرتے ہو ئے انھوں نے کہا کہ”تمام صحیح الخیال لوگ اس نئے قانون کو ملکی آئین کے خلاف تو سمجھ ہی رہے ہیں جوکہ بالکل درست ہے لیکن اسکے علاوہ یہ انسانی
حقوق کے متعدّد عالمی منشورات کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے“۔
پروفیسر محمود نے بتایا کہ اقوام متّحدہ کی طرف سے مہاجرین اور پناہ گزینوں سے متعلق بین الاقوامی سطح پرمتعدّد قوانین بن چکے ہیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی اس سلسلے میں مذہب کی بنیاد پر ان طبقات کے لوگوں میں کسی قسم کی کوئی تفریق کئے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ملتی ہے۔ اس معاملے پر ملکی عدلیہ کے رخ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر طاہرمحمود نے کہا ”عدالتوں کی طرف سے اس غیر مناسب قانون پر غور و خوض کو مؤخر کیا جانا عدالتی وقار کے خلاف ہے اور حقّ و انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔“