سپریم کورٹ نے قصور میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد قتل کی جانے والی آٹھ سالہ زینب کے مقدمے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کو اس مقدمے پر کارروائی سے روک دیا ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا کہنا ہے کہ عدالت عالیہ کے پاس ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے پنجاب پولیس کے سربراہ کو زینب قتل کے مقدمے میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کے لیے 48 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے جو کل بدھ کو ختم ہو رہی ہے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق منگل کو سپریم کورٹ میں اس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران پنجاب پولیس کے ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدابخش عدالت میں پیش ہوئے اور اُنھوں نے عدالت کو بتایا کہ زینب قتل کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں 11 سو افراد کو شامل تفتیش کیا گیا ہے جبکہ چار سو سے زائد افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی لیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ابھی قتل ملزم کی عدم گرفتاری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس اپنی تفتیش صیح طریقے سے کرے تو لوگ ان کے خلاف عدالتوں میں یا پھر سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کے بارے میں درخواست نہ دیں۔
اُنھوں نے کہا کہ سیف سٹی پروجیکٹ پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ملزمان گرفتار نہیں ہو رہے۔
پنجاب پولیس کے ایڈیشنل
آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کام کر رہی ہے تاہم وہ ملزم کی گرفتاری کے لیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور پوری قوم اس واقعہ میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کی منتظر ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ بادی النظر میں زینب کے قتل میں ملوث شخص سریل کلر ہے اور عدالت نہیں چاہتی کہ اس ملزم کو کسی مقابلے میں مار دیا جائے۔
عدالت نے اس از خودنوٹس کی سماعت 21 جنوری اتوار تک ملتوی کر دی اور آئندہ سماعت لاہور میں ہو گی۔
سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت پر زینب قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے علاوہ فورینزک لیبارٹری کے سربراہ کو بھی طلب کر لیا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز پیر کو لاہور ہائی کورٹ نے زینب کیس میں پولیس حکام کو قاتل کی گرفتاری کے لیے مزید دو دن کی مہلت دی تھی جبکہ قصور میں لگائے جانے والے فورینزک کیمپ میں مشتبہ افراد کے ڈی این اے جمع کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔
لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے موقع پر پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق زینب کو ریپ کرنے والا ملزم اس سے قبل سات دیگر بچیوں سے جنسی زیادتی کے مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب ہے۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ شخص کی تلاش سنہ 2015 سے جاری ہے تاہم اس میں پولیس کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔