دسمبر 2017 کے آغاز کے بعد پہلی مرتبہ بٹ کوائن کی قیمت دس ہزار امریکی ڈالر سے کم ہوگئی ہے۔
کریپٹو کرنسیوں کی قیمت کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ کوائن ڈیشک کے مطابق بٹ کوائن کی قیمت 9958 ڈالر تک گرنے کے بعد تھوڑی سی بہتر ہوئی۔
تاہم اس کے بعد وہ پھر گر کر 9200 ڈالر ہوگئی۔ پانچ ہفتے قبل اپنے عروج یعنی 19800 ڈالر کے مقابلے میں یہ تقریباً 53 فصد کمی ہے۔
دیگر کریپٹو کرنسیوں کی قیمتوں میں بھی تیزی سے کمی دیکھی گئی جن میں ایتھیریئم، ریپل، اور بٹ کوائن کیش شامل ہیں۔
ماہرین کو اس حوالے سے بھی خدشات تھے کہ یہ ایک مالیاتی ببل ہے کیونکہ غیر پیشہ ورانہ سرمایہ کاروں کو اس کرنسی کی سمجھ نہیں مگر پھر بھی انھوں نے اس میں کافی سرمایہ کاری کی ہے۔
بٹ کوائن کی قیمت میں رد و بدل کے پیچھے کون سے عناصر ہوتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل کام ہے اور روایتی کرنسیوں اور کموڈیٹیز کے مقابلے میں یہ زیادہ غیر مستحکم رہا ہے۔ ادھر یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ شاید حکومتیں اس کی تجارت پر پابندی لگا دیں گی۔
خاص طور پر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ جنوبی کوریا اس پر جلد پابندی لگا دیں گے۔ منگل کے روز جنوبی کوریا کے وزیرِ خزانہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ
’حکومت کا موقف یہ ہے کہ اسے کریپٹو کرنسیوں کے حوالے سے قانون سازی کرنی ہے کیونکہ یہ ایک سپیکیلیٹو انویسٹمنٹ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ورچوئل کرنسی ایکسچینجوں کو بند کرنا حکومت کا ایک آپشن ہے۔‘
اسی ہفتے بلوم برگ نیوز ایجنسی نے بتایا کہ چینی حکام کریپٹو کرنسیوں کے تجارتی پیلٹ فارمز تک رسائی کو محدود کرنے پر غور کر رہا ہے۔
بٹ کوئن کے متعلق معلومات
یہ عام کرنسی کا 'متبادل' ہے جو کہ اکثر آن لائن استعمال ہوتا ہے۔ اس کی اشاعت نہیں ہوتی ہے اور بینکوں میں یہ نہیں چلتا۔
ہر دن 3600 بٹ کوائن تیار ہوتے ہیں اور ابھی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ بٹ کوائن استعمال میں ہیں۔
بٹ کوائن کو کرنسی کی ایک نئی قسم کہا جاتا ہے۔ اگرچہ دیگر کرنسیوں کی طرح اس کی قدر کا تعین بھی اسی طریقے سے ہوتا ہے کہ لوگ اسے کتنا استعمال کرتے ہیں۔
بٹ کوائن کی منتقلی کے عمل کے لیے 'مِننگ' کا استعمال ہوتا ہے جس میں کمپیوٹر ایک مشکل حسابی طریقہ کار سے گزرتا ہے اور 64 ڈیجٹس کے ذریعے مسئلے کا حل نکالتا ہے۔
ڈیٹا ٹریک تحقیق کے نک کولاز نے کہا کہ بٹ کوائن کے مستقبل میں ایکسچینج میں شامل کیے جانے نے اسے جواز بخشا ہے کہ یہ ملکیت ہے جس کی آپ تجارت کر سکتے ہیں۔'