نئی دہلی/6جولائی(ایجنسی) گرمیوں کی تعطیلات کے بعد آج ایک بار پھر سپریم کورٹ آف انڈیا میں بابری مسجد رام جنم بھومی مقدمہ کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کے سامنے ہوئی جس کے دوران سب سے پہلے ہندو فریقین نے اپنی نامکمل بحث مکمل کی، اس کے بعد جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے مقررکردہ سینئرایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون نے عدالت میں اپنے دلائل پیش کئے۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے بابری مسجد معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد وکلا کی دلیلوں اور قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے بلکہ انتہائی حساس اور اہم معاملہ ہے اور چونکہ الہ آباد ہائی کورٹ کی تین رکنی بینچ پہلے ہی اس مقدمہ کی سماعت کرچکی ہے اس لئے حتمی مراحل میں اصولی طور پر اسے ایک کثیر رکنی بینچ کے حوالہ کردیا جانا چاہئے تاکہ مقدمہ کے ہر پہلوکا باریک بینی سے تجزیہ ممکن ہوسکے۔مولانا سید ارشد مدنی نے یہ بھی کہا کہ مسجد کی شرعی حیثیت کے تعلق سے ہمارے وکلاء نے جو بات بینچ کے سامنے کہی ہے، وہ بالکل درست ہے۔ انہوں نے اس بات پر ایک بار پھر اپنی گہری
تشویش کا اظہار کیا ہےکہ کچھ لوگ منظم طریقہ سے عدالت سے باہر اس معاملہ میں غیر ضروری بیان بازی کررہے ہیں یہاں تک کہ بعض ذمہ دارلوگ میڈیا کے سامنے آکر اسی مقام پر مندربنانے کی بات کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بڑا سوال یہ ہے کہ جب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو اس طرح کی بیان بازی کا کیا جواز ہے؟ اس لئے میں گزارش کروں گا کہ معزز عدالت ازخود اس بات کا نوٹس لے اورجو لوگ ایسا کررہے ہیں، انہیں انتباہ کرے۔ کیونکہ اس طرح کی بیان بازی سے معاشرے میں انتشار واشتعال پھیل سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ ایسا کررہے ہیں غالباً ان کی منشاء یہی ہے اور یہ سب کسی طے شدہ منصوبہ کے تحت ہورہا ہے مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ایک محب وطن شہری کی طرح مسلمان صبر وتحمل کے ساتھ عدالت کے فیصلہ کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ انہیں عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے اور انہیں یقین ہے کہ عدالت دوسرے معاملہ کی طرح اس اہم مقدمہ میں بھی ثبوت وشواہد کی بنیاپر فیصلہ د یگی دوسری طر جولوگ غیر ضروری بیان بازی میں مصروف ہیں وہ اپنے رویہ سے برملااظہار کررہے ہیں کہ جیسے انہیں نہ تو عدالت پر اعتمادہے اور نہ ہی ان کی نظرمیں عدالت کی کوئی عزت ہے ۔