اپنے مضمون میں خالد شیخ لکھتے ہیں کہ دو نظریاتی حریف پارٹیوں کے درمیان لڑا گیا گجرات الیکشن انتخابی مہم شروع ہوتے ہوتے نرم اور گرم ہندوتوا کی جنگ میں تبدیل ہوگیا۔ ہوسکتا ہے کہ ہندوتوا کی لیباریٹری میں بی جے پی ک شکست دینے کے لئے یہ کانگریس کی حکمت عملی رہی ہو‘ لیکن واضح ہوگیا کے نام نہاد سکیولر پارٹیاں مسلمانوں کو اپنا ہمنوا بنانی کے لئے اکثریتی فرقے کی ناراضگی کبھی مول نہیں لیں گے۔بہرحال کانگریس کی نرم ہندوتوا کی حکمت عملیکا خاطر خواہ اثر دیکھنے کو ماور وکاس پتر مودی کو منصبی ذمہ داریاں ترک کرکے زیادہ تر وقت گجرات میں گذارنا پڑا اور وہ جلد ہی مذہب اور ذات پات کی اوچھی سیاست پر آگے اور اس پر پاکستانی سازش کا تڑکا لگادیا۔ ان سب کے باوجود بی جے پی لیڈروں کو جس بات ک ااندیشہ تھا وہی ہوا ۔ کامیابی کی فیصد کم ہوا او ربی جے پی گذشتہ بیس برسوں میں پہلی بار دوہندسوں میں سمٹ گئی ۔ اسے جیتنے سیٹوں کا نقصان ہوا ‘ اتنی ہی سیٹوں کافائد ہ کانگریس کو ملا اور حلیفوں کو ملنے والی تین سیٹیں بونس کی شکل میں حاصل ہوئیں۔ اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں۔ بی جے پی کا وجود مودی کے دم سے ہے اور مودی ناقابل تسخیر نہیں ۔
اگر ان کی آبائی اور نظریاتی ریاست میں چیلنج کیاجاسکتا ہے تو سال رواں میں ہونے والے انتخابات میں انہیں زبردست ٹکر دی جاسکتی ہے۔ جس کے اثرات ہمیں2019کے لوک سبھاانتخابات میں دیکھنے کو ملیں گے۔ مودی بھگت او رمودی نواز میڈیا بھلے ہی مودی کی مقبولیت میں کمی کا اعتراف نہ کرے ان کی مقبولیت میں کمی ائی ہے اور ان بڑے بول پن او ربلند بانگ دعوؤں کی قلعی اترتی جارہی ہے۔ معاشی اصلاحات کے نام پر کی جانے والی آمرانہ پالیسیاں گھاٹے کا سودا ثابت ہوئی ہے۔ بیروزگاری خطرناک حد وں کو چھورہی ہے اور مہنگائی کم ہونے کانام نہیں لے رہی ہے۔بی جے پی ریاستوں میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بدتر ہے۔ بری خبر یہ بھی ہے کہ معیشت کی سست رفتاری بدستور قائم رہے گی۔
ماہرین معاشیات اس کی بڑی وجہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا نفاذ ا رزراعی اور صنعتی سیکٹر کی مایوس کن کارکردگی بتاتے ہیں۔مودی اور بی جے پی لیڈروں کو گجرات میں جوبا ت سب سے زیادہ کھلی وہ کانگریس کی نرم ہندوتوا پالیسی تھی اب تک لوگوںیہ لوگ کانگریس پر مسلمانوں کی خوشنودی کا الزام لگاکر اکثریتی فرقے کو اس سے بدظن کرنے میں کامیاب ہوتے تھے لیکن گجرات میں راہول گاندھی کے
دودرجن سے زائد مندروں میں حاضری ۔ بی جے پی سے برگشتہ طبقوں کی حمایت مسلم مسائل کو اٹھانے او رمسلم حقوں میں جانے سے گریز نے پانسہ پلٹ دیا اور ارون جیٹلی کا یہ اعتراف کہ اصلی ہندوتوا کے ہوتے ہوئے نقلی ہندتوا پارٹی کی کیا ضرورت ہے ‘ بھگوا خیمے میں گھبراہٹ کا غمار ہے جس نے ہندوتوا کے جملہ حقوق اپنے پاس رکھ چھوڑے ہیں ان میں اقلیتی او ربالخصوص مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔
اگر مسلم سلاطین کا صدیوں پر محیط دوران کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور وہ ہراسلامی یادگار مٹانے یا اسے ہندوشناخت دینے پر تلے ہیں تو دلتوں او رپچھڑے طبقات کے ہندو ہونے کا خیال انہیں الیکشن کے وقت ہی کیوں آتا ہے جبکہ باقی دنوں میں وہ اچھوت سمجھے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ جانوروں جیسا بدتر سلو ک کیاجاتا ہے۔ پچھلے ہفتے چند دن قبل احمد آباد میں زیر حراست کے دلت ہونے کے انکشاف پر پندرہ پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر اسے اپنے جوتے چاٹنے پر مجبور کیا۔ حقارت آمیز غیرانسانی سلوک کا یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔
مودی اور یوگی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس میں تیزی کیساتھ اضافہ ہی ہوا ہے ۔سوال یہہے کہ دلت توبیداری کا مظاہرہ کرجاتے ہیں لیکن آزادی کے بعد سے کٹتے پٹتے اور لٹتے رہنے کے باوجود مسلمانوں میں بیداری کی رمق کیوں نہیں پائی جاتی؟۔سال2013کے مظفر نگر فسادات کے بعد سے بھگوائی غنڈہ حکومت او رپولیس کی سرپرستی میں کسی نہ کسی بہانے سے ہمیں ہراساں کرنے کا موقع نہیں چھوڑے لیکن ہماری قیادت مذمتی بیان کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتی ہے نہ ہی ان سے کوئی توقع کی جاسکتی ہے ۔ہمارے شبہہ ملک دشمن اور غدار وطن ہوکر رہ گئی ہے اس کے لئے جہاں کانگریس منافقت اور فرقہ پرستوں کی عصبیت ذمہ داری ہیں وہیں بڑی حدتک ہماری غیر موثر اور مایوس کن قیادت قصور ہے۔
یہ المیہ ہندوستان کا نہیں سارے عالم اسلام کا ہے۔ مودی حکومت ہماری اسلامی شناخت مٹانے کے درپے ہے۔ اس سے نپٹنے کے لئے مسلمانوں کے فعال طبقے اور تنظیموں کو سماجی اور تعلیمی اصلاح پر توجہ دینی چاہئے۔ اسلام کا سماجی نظریہ کتابوں میں بند ہے ۔ اسے اپنے کردار عمل میں ڈھالنا چاہئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے عقائد واعمال کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ازسر نو جائزہ لیں اور مسلکی اور فردعی اور فرسودہ رسومات رسم رواج کے خرافات سے اوپر اٹھیں تاکہ دین ودنیا دونوں کی سرخروئی حاصل ہو۔