: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
: سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
بڑا مہربان نہایت رحم والا
انصاف کے دن کا حاکم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے تک قبول فرماتا ہیں (چنانچہ بندے کو مایوس نہ ہونا چاہئے)۔ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ ترمذی شریف)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کہاہ عوام کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟،جب کہ وہ اقلیتی درجے کے بغیر قومی اہمیت کے ادارے کی حیثیت سے کام کررہا ہے۔ سپریم کورٹ نے دستور کے آرٹیکل 30کی نیت کو واضح کیا اور کہا کہ اس مقصد اقلیتوں کو دبانا نہیں ہے۔ آرٹیکل 30کا تعلق اقلیتوں کے تعلیمی ادارے چلانے کے حق سے ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی موقف کے مسئلے پر بحث سے نمٹنتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ 2006کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا کیا اثر ہوگا۔جس نے 1961ئکے ایک ترمیمی قانون کی شق کو کالعدم کردیا جس کے ذریعہ یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دیاگیا تھا۔ سپریم کورٹ کی 5ججوں کی ایک دستوری بنچ نے ایس عزیز باشابنام ہند یونین کیس میں 1967میں کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چونکہ ایک مرکزی یونیورسٹی چونکہ ایک مرکزی ادارہ ہے۔اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ بنچ
نے جو چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ،جسٹس سنجیو کھنہ،سوریہ کانت، جسٹس جے پی پادری والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرااور جسٹس ستیش چندر شرما پر مشتمل ہے کہا کہ اقلیتی ٹیگ کے بغیر ادارہ قومی اہمیت کاحامل ادارہ ہے،لوگوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آیا یہ اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟،یہ صر ف ایک برانڈ نیم اے ایم یو ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دینے کی تائید کرنے والے ایک درخواست گذار کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے ایڈوکیٹ شاداں فراست نے کہاکہ جب تک باشا کیس کا فیصلہ آیا یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ کی حامل سمجھا جاتا تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی موقف کی مدافعت کرتے ہوے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت تعلیم کے معاملے میں درج فہرست اقوام سے بدتر ہے اور صرف تعلیم کے ذریعہ انہیں بااختیار بنایا جاسکتا یہ۔ مرکزی حکومت نے دو دن قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی موقف کی مخالفت کی۔