لکھنؤ: دہلی کے اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہی جاتا ہے، یہ بات سیاسی پنڈت کئی بار کہہ چکے ہیں. لیکن اتر پردیش کے انتخابات اس باری اتنی اہم ہو جائیں گے کہ اس سے پہلے یہ شاید ہی ہوا ہو. چونکہ اس انتخابات میں کئی بڑے چہرے کی ساکھ داؤ پر لگی ہے. یہ انتخابات وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ، ایس پی صدر اکھلیش یادو، بی ایس پی سپریمو مایاوتی اور پی ایم مودی کے لئے بھی اہم ہے. اسمبلی انتخابات کو 6 ماہ سے زائد عرصے ہو چکے ہے. نتائج واضح ہو جائیں گے کہ عام عوام ریاستی حکومت کے کام سے خوش ہے یا نہیں .
وہیں سماجوادی پارٹی کا صدر بننے کے بعد اکھلیش یادو کے سامنے بھی بڑا چیلنج ہے کہ کیا وہ اسمبلی انتخابات میں ملی کراری شکست کے بعد پارٹی میں دوبارہ جوش بھرنے کا مادد رکھتے ہیں یا نہیں کیونکہ یوگی حکومت کے خلاف ان کے پاس اچھے خاصے مسائل ہیں . پھر چاہے وہ بروزگاری یا قانون و امان یا کسانوں کا مسئلہ ہو.
ان انتخابات میں، بی ایس پی نے پارٹی کے نشان پرھی مقابلہ کیا ہے. لوک سبھا میں
انتخابات میں کوئی بھی سیٹ نہ جیت پانے والی بی ایس پی کو اسمبلی انتخابات میں بھی تیسرے نمبر پر ہی رہی ہے. بی ایس پی اگر ان انتخابات میں کچھ خاص نہ کر پائی تو اس کے سیاسی وجود پر بحران کھڑا ہو سکتا ہے کیونکہ حال ہی میں اس کے کئی بڑے لیڈر چھوڑ کر جا چکے ہیں.
یہاں تک کہ یوگی ادیتھناتھ کے سامنے بھی، اعتماد کو بچانے کا چیلنج ہے. اسمبلی انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتنے والی بی جے پی کتنی سیٹیں جیتتی ہے اس بات پر بھی نظر رہے گی ویسے عام طور پر نکاۓ انتخابات کے نتائج ریاست میں جس پارٹی کی حکومت رہتی ہے اسی کے حق میں رہتے ہیں. لیکن ووٹ کے فیصد میں بہاؤ بھی اس انتخاب میں مقبولیت کا پیمانہ بھی ہوں گے.
وزیراعظم مودی کے پارلیمانی حلقے وارانسیسی کی نشستیں پر بھی نظر ہے . بی جے پی کا دعوی ہے کہ یہ یہاں تمام نشستیں جیت جائے گی. لیکن ان انتخابات میں مقامی مسائل غلبہ رہتے ہیں اور بجلی، پانی، سڑک کے معاملے پر لوگ کتنا خوش ہیں یہ یوگی حکومت کے کام کاج پر انحصار کرنا ہوگا.