ذرائع:
دہلی: سپریم کورٹ نے عصمت ریزی کیس میں کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی زبان پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعض حصے انتہائی قابل اعتراض اور غیر منصفانہ ہیں۔ درحقیقت کلکتہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ نوعمر لڑکیوں کو اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھنا چاہیے اور دو منٹ کے لئے بھی لذت میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے ایسی زبان کے استعمال کو قابل اعتراض قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ججوں سے توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کریں اور نہ ہی تقریر کریں۔ یہ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت نابالغوں کے حقوق کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی سماعت کی اور ریاستی حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا۔ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت سے پوچھا ہے کہ کیا وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سماعت کرے گی؟
دراصل، حال ہی میں، پوکسو ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے، کلکتہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ
لڑکیوں کو اپنی جنسی خواہشات کو قابو میں رکھنا چاہئے اور دو منٹ کی لذت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ بنچ نے کہا تھاکہ جنسی خواہشات پر قابو رکھیں کیونکہ بمشکل دو منٹ کی لذت حاصل کرنے کے بعد لڑکیاں معاشرے کی نظروں میں گر جاتی ہیں۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ نوجوان لڑکیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جسم کی سالمیت اور وقار کو برقرار رکھیں۔ عدالت نے لڑکوں کو لڑکیوں کی عزت کا احترام کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ لڑکوں کے ذہنوں کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ خواتین کا احترام کریں۔
دراصل ٹرائل کورٹ نے 20 سالہ نوجوان کو اپنی نابالغ گرل فرینڈ کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھنے کے جرم میں بیس سال قید کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف نوجوان نے ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی۔ درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گزار کی نابالغ گرل فرینڈ نے اعتراف کیا کہ دونوں کے رضامندی سے جسمانی تعلقات تھے اور دونوں شادی کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ متاثرہ لڑکی نابالغ تھی اس لئے عدالت نے نوجوان کوپوکسو ایکٹ کے تحت سزا سنائی۔ ہائی کورٹ نے دلائل سننے کے بعد نوجوان کی رہائی کے احکامات جاری کئے، لیکن اس کے فیصلے کی زبان کو سپریم کورٹ نے قابل اعتراض قرار دیا ہے۔