نئی دہلی/4جنوری(ایجنسی) سپریم کورٹ نے گزشتہ سال طلاق بدعت (طلاق ثلاثہ ) کو غیر قانونی ٹھہرانے، پرائیویسی کے حق کو بنیادی حق قرار دینے اور نابالغ بیوی سے جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے عصمت دری کے زمرے میں رکھنے جیسے تاریخی فیصلوں سے جہاں اپنا اصلاحی اور روشن چہرہ پیش کیا، وہیں کلکتہ ہائی کورٹ کے رٹائرڈ جج سی ایس كرنن کو جیل بھیج کر دکھایا کہ قانون کے سامنے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں ہے۔
start;"="">
آئینی بنچ نے سائرہ بانو اور دیگر کی درخواستوں پر گزشتہ سال 22 اگست کو ایک بار میں تین طلاق کہہ کر نکاح کو ختم کرنے کے فعل کو غیر آئینی قرار دے کر مسلم خواتین کو بہت بڑی راحت فراہم کی۔
مسلم خواتین کو تو کئی بار ای میل، خط یا کسی دوسرے ذریعہ سے طلاق دے دیا جاتا تھا۔