the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات 2024 میں کون سی سیاسی پارٹی جیتے گی؟

کانگریس
جھارکھنڈ مکتی مورچہ
بی جے پی
اعتمادنیوز: 

حیدرآباد:بیرسٹر اسدالدین اویسی صد کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے کہا ہے کہ یونیفار م سیول کوڈ کے نام پر ہندو اکثریتی ضابطہ اور اخلاق کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح سے انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عقیدہ یا آستھا سے دیش نہیں چل سکتا۔ دستور سے دیش چلتا ہے۔ 6دسمبر کو مسلمانوں کو جو زخم دیا گیا ایسا زخم دوبارہ نہیں لگنا چاہئے۔ تاریخ سے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔تاریخ کے برے اوراق دوہرائے نہیں جاتے۔ اس ملک میں سماج کے تمام طبقات کو برابر کا حصہ نہیں ملے گا تو جمہوریت کامیاب نہیں ہوگی۔ بیر سٹر اسدالدین اویسی ایم پی صدر مجلس نے ٹی وی 9بھارت کی جانب سے ”ستہ سمیلن“کے تحت مباحث میں حصہ لیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ اس پروگرام کا ٹائٹل ”آل انڈیا بھائی جان“دیا گیا تھا۔ بیر سٹر اسدالدین اویسی ایم پی صدر مجلس نے کہا کہ یونیفارم سیول کو ڈ کی بات کی جاتی ہے اور اتراکھنڈ میں قبائیلیوں کو اس قانون سے مستثنیٰ کردیاگیا تو یکسانیت کہاں باقی رہی۔ آرٹیکل 25کے تحت مساوات کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔انہو ں نے کہا کہ ملک میں ہندو غیر منقسمہ خاندان قانون کے تحت ٹیکس پر چھوٹ ملتی ہے۔ یونیفارم سیول کوڈ کے تحت آیا یہ چھوٹ مسلم خاندانوں کو بھی ملے گی؟بیرسٹر اویسی نے کہاکہ یو سی سی کے نام پر ہبہ کا قانون ختم کیا جارہا ہے۔ ہندوستان میاریج ایکٹ اور ہندو وراثتی قانون کو ہم پر تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اتراکھنڈ میں اس کی مثال سامنے آئی ہے کہ والد اور والدہ کے رشتہ داروں میں سے شادی کے لئے فہر ست تیار کردی گئی۔ اس طرح کی فہرست کو ہم پر کیوں تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اترا کھنڈ ریاست میں شادیوں کے لئے رشتہ داری کی ممنوعہ فہرست تیار کردی گئی ہے جب کہ سپریم کورٹ نے یہ کہہ دیا ہے کہ اختیار بنیادی حق ہے۔ صدر مجلس نے کہاکہ مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ بیٹیوں کو برابر کا حصہ نہیں دیتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانو ں میں بیٹی کو والد کی طرف سے اور شوہر کی طرف سے حصہ ملتا ہے۔ بیرسٹر اویسی نے کہاکہ سی اے اے کو مسلمانوں کے خلاف سازش اس لئے کہا جارہا ہے کہ سی اے اے کو این پی آر اور این آر سی کے ساتھ جو ڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت مردم شماری نہیں کرواتی۔ این سی آر جب ہوگا تو شہریوں سے کہا جائے گا کہ ان کے دادا کا برتھ سرٹیفیکیٹ پیں کیا جائے۔ آدھار کارڈ شہریت کا ثبوت نہیں ہے۔ ملک میں 5فیصد لوگوں کے پاس پاسپورٹ ہے اس لئے اس قانون کی مخالفت کررہے ہیں۔صدر مجلس نے یہ واضح کیا ہے کہ سی اے اے کے قانون میں وہ لفظ مذہب نکال دیاجائے تو اس پر عمل آوری کی جاسکتی ہے۔ سی اے اے کو مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ آسام میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں این آر سی کروایا گیا لیکن ہیمنت بسوا شرما کی خواہش کے مطابق زیادہ مسلمان پریشان نہیں ہوئے اس لئے وہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں کروائے گئے این آر سی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ صدر مجلس نے کہاکہ پنڈت نہرو کے دور میں مسلمانوں کو پاکستان روانہ کردیا گیا۔ اس وقت بنگلہ دیش کی تشکیل نہیں ہوئی تھی۔ ان واقعات کے تناظر میں ہم دودھ کے جلے ہوئے ہیں، چھانچ پھوک پیتے ہیں۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ وہ اس بات کے مخالف نہیں ہیں کہ ہندو،سکھ، عیسائی، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، برما سے ہندوستان آجائیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا قانون سے بنانے سے پہلے ہندو اور دیگرطبقات بھارت کو نہیں  اویسی نے کہا کہ عبادت گاہوں کا قانون جو بنایا گیا وہ بھی غلط تھا کیونکہ اس میں کہا گیا کہ بابری مسجد۔ رام مندر کو چھوڑ کر ملک میں تمام عبادت گاہوں کو 1947ء سے قبل موقف پر عمل کرنا چاہئے۔ جب یہ قانون بن چکا ہے تو اس قانون پر عمل آوری ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد۔ رام مندر کے مقدمہ کے فیصلے میں یہ واضح کیا کہ عبادت گاہوں کے قانون پر عمل کیا جائے تو نچلی عدالتوں کو اس قانون کو سمجھنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ عبادت گاہوں کا قانون ملک کی بنیادی ڈھانچہ کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی میں 600سالہ قدیم مسجد کو قانونی طریقہ کار پر عمل کئے بغیر منہدم کرگیا گیا۔ اینکر نے کہا کہ وہ سرکاری اراضی تھی۔ اس پر بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس طرح سے حکومت کو ہجوم کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت خود مساجد توڑ رہی ہے۔ ایودھیا میں ہجوم



کو کون لے کر گیاتھا؟جنھوں نے منہدم کیا ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔بیرسٹر اویسی نے سوال کیا کہ اگر 6دسمبر کا واقعہ پیش نہیں آتا، 1986ء میں بابری مسجد کے تالے کھولے نہیں جاتے اور 1949ء میں مسجد میں مورتیاں نہیں رکھی جاتیں تو سپریم کورٹ کا فیصلہ کیاآتا؟کیا 22جنوری کا واقعہ پیش آسکتا تھا؟انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ میں حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ بابری مسجد کو جھوا نہیں جائے گا، لیکن مسجد کو منہدم کردیا گیا۔ بھارت کے مسلمانوں کو جو زخم دیاگیا ہے،وہ زخم دوبار ہ نہیں لگنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو بھی رام کی یاد 1989ء میں آئی۔ پالن پور میں بی جے پی نے قرار داد منظور کی۔بیرسٹر اویسی نے کہا کہ آر ایس ایس 1924ء میں بنی۔ وشوا ہندو پریشد 1960میں بنی۔ کسی کو رام مندر یاد نہیں تھا۔ گاندھی جی، سردار پٹیل،کے ایم منشی،بال گنگا دھر تلک،پنڈت مدن موہن مالویہ، کسی نے بھی رام مندر کی بات نہیں کی۔ 1989ء میں بی جے پی نے قرار داد منظور کی کہ مندر توڑ کر بابری مسجد بنائی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اسے بھی غلط قرار دیا اور واضح کیا کہ کوئی مندر کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی تھی۔ اینکر نے کہاکہ بابری مسجد کی جگہ پر انگریزوں کے دور میں بھی مقدمہ چلا۔ اس پر بیرسٹر اویسی نے کہاکہ 1875ء میں بابری مسجد کے باہر چبوترے کے بارے میں تنازعہ تھا، مسجد پر کسی کا جھگڑا نہیں تھا۔ 1949ء میں چبوترہ چھوڑ کر مسجد میں گھس گئے اور مورتیاں رکھ کر قفل ڈال دیاگیا۔ اس وقت متعلقہ ضلع کلکٹر جنھوں نے مدد کی وہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد جن سنگھ کے رکن پارلیمنٹ بن گئے۔ بیرسٹر اویسی نے کہاکہ گیان واپی مسجد کے بارے میں مسلم فریق کے پاس 1530ء کے دستاویزات موجود ہیں۔ بابری مسجد میں 500سال تک نماز پڑھی گئی۔ ہمارا قبضہ ہم سے چھین لیاگیا۔ متھرا میں جو تنازعہ جاری ہے وہاں پر مسجد اور مندر کمیٹیوں کے درمیا ن میں 1960ء میں جو دستخط ہوئی اس پر پنڈ ت مدن موہن مالویہ کی بھی دستخط موجود ہے، کیا نریندر مودی مالویہ سے بڑے ہندو ہوسکتے ہیں؟ اس معاہدے کے تحت 8ایکر زمین مسلمانوں نے مندر کے حوالے کردی تھی۔ اس مسئلے کو 2023ء میں دوبارہ کھولا گیا۔ اینکر نے بیرسٹر اویسی سے سوال کیا کہ ان کا کیا خواب ہے، آیا وہ دہلی میں اقتدار کا خواب دیکھ رہے ہیں؟ اس پر بیرسٹر اویسی نے کہا کہ یہ سوال  ان سے پوچھا جائے جو وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس عظیم ملک کے وزیر اعظم تیسرے مرتبہ مودی نہ بنیں۔ جنھیں وزیر اعظم بننا ہے وہ جوا ب دیں کہ ان کا کیا خوا ب ہے۔ بیرسٹر اویسی نے کہاکہ وہ جس حال میں ہیں خوش ہیں۔ صدر مجلس نے کہاکہ پارلیمانی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ اشتراک کے بارے میں مشاورت کی جارہی ہے۔ اس مرتبہ کچھ نہ کچھ چھوٹی جماعتوں سے گٹھ بندھن ہوگا۔ پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے مہاراشٹرا، یوپی، بہار، مدھیہ پردیش اور کرناٹک سے بھی امیدوار کھڑا کرنے کے لئے مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن ابھی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کیاگیا، اس بار ے میں وقت سے پہلے بولنا صحیح نہیں ہے۔ کجریوال سے متعلق سوال پر بیرسٹر اویسی نے کہا کہ وہ سافٹ ہندوا نہیں بلکہ حقیقی ہندوتوا پر عمل کررہے ہیں۔ کانگریس اور راہول گاندھی سے متعلق سوال پر بیرسٹر اویسی نے کہا کہ ان کے بارے میں مجھے نہیں معلوم۔ ہم چھوٹے لوگ ہیں،بڑوں سے ہمیں نہ ملایا جائے۔ کانگریس نے 185نشستوں پر گذشتہ انتخابات میں مقابلہ کیا، صرف 16پر کامیاب ہوئے۔ ہماچل پردیش میں کانگریس کی حکومت گرنے کے قریب ہے۔ کانگریس اپنی زمین کھو رہی ہے۔ انھیں صرف مسلم ووٹوں کی فکر ہے۔ مسلمانوں کو لگتاہے کہ کانگریس آنے سے بڑا بھونچا ل ہو جائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ اس لئے کہتے ہیں کہ پسماندہ طبقات اپنی قیادت خود بنائیں۔ جو لوگ کل تک سیکولر ازم کے نام پر ہمیں گالی دیتے تھے ان میں اشوک راو چوہان، اجیت پوار جیسے لوگ شام ہیں جو بی جے پی میں چلے گئے اور کئی لوگ جارہے ہیں، اس لئے اس طرح کا سوال ہم سے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سیاسی سیکولرازم کے بجائے دستور میں جس سیکولرازم کا ذکر کیا گیا ہے اسے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ مجلس کی توسیعی منصوبہ بندی کے بارے میں اینکر نے بتایا اور کہا کہ 2008ء سے اب تک 11ریاستوں میں مجلس قدم جماچکی ہے، کیا مجلس کی دہلی پر نظر ہے؟بیرسٹر اویسی نے کہاکہ ہمارے بزرگوں نے پارٹی کے لئے جو محنت کی تھی اس کا فائدہ ہم اٹھا رہے ہیں۔ ہماری جدوجہد اور لڑائی جاری ہے۔
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.