نئی دہلی : سپریم کورٹ کے ایک سابق جج اور ہائی کورٹ کے تین ریٹائرڈ ججوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک کھلا خط لکھ کر کہا ہے کہ وہ کیسوں کی تقسیم کو لے کر سپریم کورٹ کے چار ججوں کے ذریعہ اٹھائے گئے معاملہ سے متفق ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بحران کو عدالتی نظام کے اندر ہی حل کرنے کی ضرورت ہے۔
عدالت عظمی کے سابق جج پی بی ساونت ، دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ ، مدارس ہائی کورٹ کے سابق جج کے چندو اور ممبئی ہائی کورٹ کے سابق جج ایچ سریش کے ذریعہ یہ خط میڈیا کو دیا گیا ہے ۔یہ خط سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوگیا ہے۔
جج شاہ نے دیگر ریٹائرڈ ججوں کے ساتھ ایک خط لکھے جانے کی تصدیق بھی کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کھلا خط لکھا ہے ، جس پر خط میں ذکر کئے گئے دیگر ججوں کی بھی تائید حاصل کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرد ججوں کے ذریعہ ظاہر کی گئی یہ رائے ٹھیک ویسی ہی ہے ، جیسی کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ظاہر کی تھی کہ اس بحران کے حل ہونے تک اہم کیسوں کو سینئر ججوں کی پانچ رکنی ایک آئینی بینچ کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے۔
جسٹس شاہ نے کہا کہ تین دیگر ججوں کی تائید کے سلسلہ میں وہ شروع میں مطمئن نہیں تھے ، اس لئے انہوں نے کوئی خط لکھنے کی بات سے شروع میں انکار کردیا تھا ، لیکن اب انہیں سبھی کی تائید حاصل ہوگئی
ہے۔
خط میں ججوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے معاملوں خاص طور سے حساس معاملوں کو عدالت عظمی کی مختلف بینچوں کو تقسیم کئے جانے کے طور طریقوں کے بار میں ایک سنگین معاملہ روشنی میں لایا ہے ۔ انہوں نے مناسب طریقہ سے معاملات کی تقسیم نہیں کئے جانے اور کسی خاص بینچ ، جس کی اکثر ہی جونیئر جج صدارت کرتے ہیں ، کو منمانے طریقہ سے تقسیم کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے ، اس کا عدالت کی انتظامیہ اور قانون و انتظام پر بہت ہی منفی اثر پڑ رہا ہے۔
چارریٹائرڈ ججوں نے کہا کہ وہ عدالت عظمی کے چار موجودہ ججوں کی اس بات سے متفق ہیں کہ حالانکہ سی جے آئی ماسٹر آف روسٹر ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بینچوں کو کام کی تقسیم من مانے طریقہ سے کی جائے ، جیسا کہ حساس اور اہم معاملات چیف جسٹس کے ذریعہ جونیئر وکیلوں کی چنندہ بینچوں کو بھیجا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان معاملات کو سلجھائے جانے کی ضرورت ہے اور واضح قانون بنایا جانا چاہئے جو مدلل ، غیر جانبدار اور شفاف ہو ۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام اور سپریم کورٹ میں لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کیلئے اسے لازمی طور پر فورا ہی کیا جانا چاہئے ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ یہ چیز کئے جانے تک ضروری ہے کہ حساس اور زیر التوا اہم معاملات کا نپٹارہ عدالت عظمی کے پانچ سینئر ججوں کی ایک آئینی بینچ کرے۔