نئی دہلی/2جولائی(ایجنسی) سپریم کورٹ میں آج بظاہر پہلا راؤنڈ اقلیتی فرقے کے حق میں رہا جب عدالت عظمی نے تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کے آئینی جواز کو للکارنے والی ثمینہ بیگم کی عرضی کی فوری سماعت سے انکار کردیا۔
ہندستان کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی بنچ نے فیصلہ سنایا کہ یہ معاملہ مرکزی حکومت کی طرف سے جوابی حلف نامے داخل کئے جانے کے بعد اپنی میعاد کے اندر زیرسماعت آئے گا ۔ بنچ میں جسٹس اے ایم کھانویلکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچڈ بھی شامل تھے۔
ہند یونین کی طرف سے بھی جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لئے مزید مہلت مانگی گئی جو بنچ کی طرف سے دے دی گئی۔
قبل ازیں مرکزی حکومت کونوٹس جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا
کہ اگرچہ کثرت ازدواج اور نکاح حلالہ کا تعلق مسلم پرسنل لاء سے ہے لیکن ہندستانی آئین کے تحت یہ دونوں طریقے عدالتی نظرثانی سے مبرا نہیں۔
سپریم کورٹ میں ثمینہ بیگم ، نفیسہ خان، ایم محسن اور بی جے پی لیڈر اور ایڈووکیٹ اشون کمار اپادھیائے کی عرضیاں داخل ہیں جن میں تعدد ازدواج ، نکاح حلالہ، شیعوں میں ہونے والا عارضی نکاح متعہ اور سنیوں میں ہونے والی مختصر مدتی شادی مسیار کے آئینی جواز کوللکارا گیاہے۔
یہ عرضیاں اس بنیاد پر داخل کی گئی ہیں کہ ان سے آئین کی دفعات 14، 15اور 21 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
مسٹر اپادھیائے نے یہ بتاتے ہوئے کہ ہرچند کہ مختلف مذاہب کے اپنے پرسنل لاءہیں لیکن انہیں آئینی جوازاور آئینی اخلاقیات سے لازمی طور پر ہم آہنگ ہونا چاہئے تاکہ آئین کی دفعات 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی نہ ہو۔