اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) نے اپریل سے نومبر 2017 کے درمیان اکاؤنٹس سے 1،771 کروڑ روپیے کا عائد کیا ہے جس میں کم سے کم توازن نہیں تھی. یہ اعداد و شمار مالیاتی وزارت سے متعلق ہے. کم از کم توازن شہروں میں 5،000 اور 3،000 گاؤں کے شاکھاؤں کے لئے ہیں .
اسٹیٹ بینک نے جولائی-ستمبر کی سہ ماہی میں 1،581 کروڑ روپے برآمد کیے تھے. یہ رقم بینک کے دوسرے سہ ماہی کے منافع سے زیادہ ہے.
اسٹیٹ بینک کے 42 ملین بچت اکاؤنٹ ہولڈرز ہیں. ان میں 13 ملین بنیادی بچت اکاؤنٹس اور جن دھن منصوبہ میں کھلی اکاؤنٹس سے کم از کم بچت نہیں ہونے سے جرمانہ نہیں کیا گیا . انہیں آزاد رکھا گیا ہے .
29 ملین بچت اکاؤنٹ ہولڈرز میں سے ایسا ہونا لازمی ہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹ میں کم سے کم بچت نہیں رکھ سکیں
گے، اور یہ ان کی مالی حالت سے متعلق ہو گی. اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے 100-50 کاٹتے کاٹتے آپ کے اکاؤنٹ سے 1،771 کروڑ روپے اڈا لیا ہے. اگر ان کے پاس پیسہ ہوتا تو وہ اسے کم کیوں رکھتی ؟
لیکن اس کمزور مالی صورتحال میں، بینک نے ان پر جرمانہ وصولا ہے. یہ چمپارن کا ایک قسم کی 'تین کاٹھیا ' نظام ہے، جس کے تحت کسانوں کو ان کے کھیتوں کے تین حصوں میں نیل کی کھیتی کرنی پڑتی تھی تاکہ نیل منیجرز کے منافع میں اضافہ ہو سکے .
اسٹیٹ بینک آف انڈیا پر این پی اے (غیر اعدام دار اثاثہ یا غیر کارکردگی کا اثاثہ)کا بوجھ سبسے جیادہ ہے . بینک کی حالت خراب ہے. بنیک نے خود کو بچانے کے لئے کمجور لوگوں کی جبے کاٹلی. بس آپ چپ رہے،
سسکتے رہیں ور بینک کو ١٧٧١ کروڈ روپیے دیتے رہیں.