ریاض/13جون(ایجنسی) قدامت پرست سعودی عرب تیزی کے ساتھ اپنے سماج کو مغربی ماڈل میں ڈھالنے میں مصروف ہے۔ایک سال قبل تک سعودی خاتون کو چست جینز اور ہارلے ڈیوڈسن ٹی شرٹ پہنے ریاض سپورٹس سرکٹ میں موٹربائیکس چلاتے دیکھنے کا تصور کرنا بھی مشکل تھا۔لیکن 24 جون سے خواتین کے ڈرائیونگ کرنے پر عائد پابندی کے ختم ہونے سے قبل ہی کئی خواتین موٹرسائیکلز سکھانے والے نجی ادارے (بائیکرز اسکلز انسٹی ٹیوٹ) میں ہر ہفتے داخلہ لے رہی ہیں تاکہ موٹر سائیکل چلانا سیکھ سکیں۔31 سالہ نورا جو کہ ان کا فرضی نام ہے، نے بتایا 'مجھے بچپن سے ہی بائیک چلانے کا شوق ہے"۔
خیال رہے کہ سعودی عرب میں خواتین کو مردوں سے بہت سے معاملات میں اجازت درکار ہوتی ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خواتین کے حقوق اور اختیارات پر پہلے سے موجود عائد پابندیوں کو کم کرنے کا آغاز گزشتہ برس سے کیا جس کے تحت گاڑی چلانے کی اجازت، بغیر محرم کے سعودی عرب میں داخلے کی اجازت، تفریح کے لیے گھر کی بجائے کھیل
کے میدان میں جانے اور سینیما گھروں میں جانے کی اجازت شامل ہے۔
دوسری جانب اس پابندی کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی گرفتاری کی خبریں بھی سامنے آئیں۔یہی وجہ تھی کہ مصنوعی روشنیوں میں موٹر سائیکل چلانا سیکھنے والی خواتین میں سے کسی نے بھی اس کریک ڈاؤن پر بات نہیں کی۔یاماہا ورگو پر سوار نورا نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا'میں اپنے گھر والوں کو بائیکس چلاتا دیکھ کر بڑی ہوئی ہوں۔اب مجھے امید ہے کہ میں اتنی مہارت حاصل کر لوں گی کہ گلیوں میں بائیک چلا سکوں۔
ان کے ساتھ ہی سوزوکی چلانے والی 19 سالہ سعودی نژاد اردنی لین تناوی موجود تھیں۔ان دونوں ہی خواتین کے لیے بائیک چلانا صرف ایک شوق اور جذبہ ہی نہیں بلکہ ایک طرح کی خود مختاری بھی ہے۔تناوی نے کہا: 'میں بائیک چلانے کے اس سارے تجربے کو ایک لفظ میں بیان کر سکتی ہوں، وہ ہے آزادی۔' یہ دونوں ہی خواتین اپنی یوکرینین انسٹرکٹر 39 ایلان بوکریوا سے بائیک چلانا سیکھتی ہیں جو خود ہارلے ڈیوڈسن چلاتی ہیں۔