ممبئی۔ آٹھ سال پہلے ایک ٹرین حادثے میں اپنے دونوں پیر گنوا چکی روشن جہاں آج ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کر چکی ہیں۔ ممبئی کے ایک سبزی والے کی بیٹی روشن نے اردو میڈیم سے پڑھائی کی، مفلسی کے تمام رنگ دیکھے، لیکن کچھ بھی انہیں اپنے خوابوں تک پہنچنے سے نہیں روک سکا۔ ان کا خیال ہے کہ ہر وہ آواز جو آپ کو کچھ اچھا کرنے سے روکے، اسے آپ اپنی جیت کے بعد کی تالیوں کی طرح سنیں، آگے بڑھیں۔
ممبئی کی لوکل ٹرین یوں تو شہر کو رفتار عطا کرتی ہے، لیکن میری زندگی اسی لوکل سے گزرتے ہوئے مانو تھم سی گئی۔ سال 2008 میں جوگیشوری کے پاس بھیڑ بھری لوکل ٹرین سے میں گر پڑی۔ حادثے میں دونوں پیر کٹ گئے۔ جیسے پیروں کے کٹنے کے ساتھ ہی میرے خواب بھی ٹوٹ گئے۔ حادثہ خود میں انتہائی بھیانک ہوتا ہے، لیکن پیسوں کی تنگی کے ساتھ اس کی شکل اور بگڑ جاتی ہے۔ گھر کا ماحول بدل چکا تھا۔ ملاقات کرنے والے آتے تو تعزیت کا اظہار کرنے کے لئے تھے، لیکن ہر بار اور بھی زیادہ توڑ جاتے تھے۔ کوئی کہتا کہ پیر کٹنے سے اچھا میں مر ہی جاتی۔ سب مذاق اڑاتے کہ ایک تو لڑکی، اس پر دونوں پیر کٹے ہوئے۔ امی۔ ابو چپ چاپ سنتے اور روتے جاتے۔
آہستہ آہستہ انہی باتوں نے ہم تینوں کو مضبوط بنا دیا اور میں معذوری کوٹہ سے پورے مہاراشٹر میں کامن انٹرنس ٹیسٹ (سی اے ٹی) میں تیسری نمبر پر رہی۔ حالانکہ، کالج کا انتخاب کرنے کے لئے میری باری آنے پر پینل نے مجھے لینے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا
تھا کہ میں 88٪ سے زیادہ معذور ہوں اور ڈاکٹری کے پیشے کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس میں لیکچر، مریض دیکھنا، او پی ڈی اور ایمرجنسی جیسے کتنے ہی بھاگ دوڑ والے کام ہوتے ہیں۔ میں یہ سب نہیں کر سکوں گی۔ اس وقت تو میں گھر لوٹ آئی، لیکن پھر امی نے مجھے حوصلہ دیا۔
میں نے محسوس کیا کہ دونوں پیروں کو کھونے کے بعد میں میڈیکل میں اتنے مارکس لا سکتی ہوں تو یہ بھی کر سکوں گی۔ میں نے ہائی کورٹ میں کیس کر دیا۔ بالآخر کورٹ کا فیصلہ میرے حق میں آیا اور میری پڑھائی شروع ہو گئی۔ میڈیکل کالج کا ہر دن مجھے اور بھی زیادہ مضبوط بناتا گیا۔ وہاں لیکچرس کے بیچ تھک جاتی تو یاد آتا کہ مجھے مریضوں کے لئے اس سے بھی زیادہ دوڑنا ہے۔ جب ہار ماننے کو ہوتی تو ہائی کورٹ کی اپنی جیت اور گھر والوں کا چہرہ یاد آ جاتا۔ پڑھائی میں پریشانی ہوتی تو یاد آتا کہ کیسے ٹرین میرے جسم سے کچھ ہی انچ دوری پر دوڑ رہی تھی اور میں پھر بھی زندہ رہی۔ یہ یاد آتے ہی ڈر، تھکان سب کچھ چھوڑ کر میں پھر سے دوڑ پڑتی۔
پہلے میرا خواب ڈاکٹر والا سفید کوٹ پہننا تھا اب اس میں ایک اور خواب جڑ گیا ہے۔ اپنے جیسے لوگوں کے لئے حوصلہ بننا۔ حادثات صرف ایک انسان ہی نہیں، پورے خاندان کی زندگی بدل دیتے ہیں۔
روشن جہاں نے کہا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ ساری زندگی اس ایک دن نے نہیں لے لی۔ کوشش رہے گی کہ اپنے جیسے کچھ لوگوں کو تکلیف سے باہر نکال سکوں۔