انڈین فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں غیرقانونی طور پر بنگلہ دیش سے ہونے والی دراندازی کے بارے میں پاکستان کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ اس میں مغربی ہمسائے کا ہاتھ ہے اور اسے چین کی بھی حمایت حاصل ہے۔
جنرل راوت نے پاکستان یا چین کا نام نہیں لیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’مغرب میں ہمارا ہمسایہ ملک یہ پراکسی گیم کھیل رہا ہے اور اسے شمال میں ہمارے ہمسائے کی حمایت حاصل ہے۔‘
شمال مشرقی ریاستوں، خاص طور پر آسام میں بنگلہ زبان بولنے والے لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور الزام یہ ہے کہ ان میں ایک بڑی تعداد بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر وہاں آکر آباد ہوگئی ہے۔
نئی دہلی میں بی بی سی نامہ نگار سہیل حلیم کے مطابق شمال مشرقی ریاستوں پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل بپن راوت نے کہا کہ اب اس علاقے میں آبادی کے تناسب کو نہیں بدلا جاسکتا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ اس بیان سے ان کی کیا مراد تھی لیکن آسام کے کئی اضلاع میں اب مسلمانوں کی اکثریت ہے جس کے لیے سیاسی جماعتیں غیر قانونی تارکین وطن کو ہی ذمہ دار مانتی ہیں۔
نامہ نگار کے مطابق جنرل راوت نے یہ بھی کہا کہ ’اس علاقے میں آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ نام کی ایک جماعت ہے جو بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ سنہ 1980 کے عشرے میں بی جے پی سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے۔‘
اس جماعت کے سربراہ مولانا بدرالدین اجمل ہیں جو جمیعت علما ہند سے بھی وابستہ
ہیں۔ جنرل راوت کے بیان سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ان کی پارٹی غیر قانونی تارکین وطن کی حمایت کی بنیاد پر مضبوط ہو رہی ہے۔
مولانا اجمل نے ٹوئٹر پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ فوج کے سربراہ نے اس طرح کا سیاسی بیان دیا ہے۔ انھیں اس بات پر کیوں فکر ہے کہ سیکولر اور جمہوری اقدار پر عمل کرنے والی ایک جماعت بی جے پی سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے؟ اے آئی یو ڈی ایف اور عام آدمی پارٹی جیسی جماعتیں ناقص حکمرانی کی وجہ سے اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔‘
آسام میں حکومت غیرقانونی تارکین وطن کی نشاندہی کرنے کے لیے شہریوں کا ایک رجسٹر ترتیب دے رہی ہے اور مبصرین کے مطابق اس رجسٹر کے مکمل ہونے کے بعد لاکھوں لوگ شہریت اور سکونت کے حق سے محروم ہوسکتے ہیں۔
جنرل راوت نے یہ بھی کہا کہ ’ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس علاقے میں جو لوگ رہتے ہیں انھیں بلا لحاظ ذات، مذہب اور جنس آپس میں مل کر رہنا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھ جائیں تو ہم خوشی سے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، لیکن ہمیں پہلے مل کر رہنا ہوگا اور پھر ان لوگوں کی نشاندہی کرنا ہوگی جو ہمارے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان 13ویں صدی میں آسام میں آنا شروع ہوئے تھے۔ لہذا آسام پر ان کا بھی حق ہے۔ لیکن ہمیں غیرقانونی طور پر یہاں بسنے والوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔
فوج کا کہنا ہے جنرل راوت کے بیان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ صرف شمال مشرق کی مجموعی صورتحال اور وہاں ترقی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔