اننت ناگ : جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ برصغیر میں امن کے قیام کے لئے دو پڑوسی ممالک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر کو صرف اور صرف بات چیت کے ذریعے ہی تشدد کے بھنور سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد سے صرف کشمیر کے قبرستان آباد ہورہے ہیں۔ محترمہ مفتی نے ان باتوں کا اظہار اپنے والد اور سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی دوسری برسی کے سلسلے میں اتوار کو یہاں دارا شکوہ پارک (پادشاہی باغ) میں منعقدہ ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے یہاں مرحوم مفتی سعید کی قبر پر فاتحہ خوانی کے علاوہ گلباری کی۔ فاتحہ خوانی کے دوران محترمہ مفتی کی آنکھوں سے آنسوں نکل آئے۔ اس موقع پر پی ڈی پی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ درجنوں چھوٹے بڑے پارٹی لیڈر موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ نے جلسہ عام سے خطاب کے دوران ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی قیادت سے مخاطب ہوکر کہا ’میں اپنے ملک کے وزیر اعظم اور پاکستانی حکمرانوں سے گذارش کرتی ہوں کہ کب تک ہمیں انسانیت کا خون بہتے ہوئے دیکھنا ہے۔ گذشتہ ہفتے فدائین حملے میں 5 سی آر پی ایف اہلکار مارے گئے، کل ہی سوپور میں ہمارے چار
جوانوں کو ہلاک کیا گیا۔ کہیں پر تصادم ہوتا ہے تو 27 سالہ جنگجو مارا جاتا ہے، وہ بھی یہیں کا رہنے والا ہوتا ہے۔ آخر کب تک یہ خون بہے گا۔ سرحدوں پر دیکھو کیا ہورہا ہے۔
پاکستان حملہ کرتا ہے تو ہمارے چار جوان شہید ہوتے ہیں اور ہم جوابی کاروائی کرتے ہیں تو ان کے پانچ جوان شہید ہوجاتے ہیں۔ زندگی جب چلی جاتی ہے تو وہ واپس نہیں آتی ہے۔ میں دونوں ممالک سے کہتی ہوں کہ جموں وکشمیر اور برصغیر میں امن کے لئے ہند و پاک دوستی ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی اور چارہ نہیں ہے‘۔
محترمہ مفتی نے کہا کہ وادی کشمیر کو صرف اور صرف بات چیت کے ذریعے ہی تشدد کے بھنور سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد سے صرف کشمیر کے قبرستان آباد ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’مفتی صاحب کہتے تھے کہ جموں وکشمیر کو موجودہ مصیبت سے باہر نکالنا ہوگا اور اس کا واحد حل بات چیت ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ گرینیڈوں سے کیا ہوگا؟اس سے صرف ہمارے قبرستان آباد ہورہے ہیں۔ اس سے کوئی مقصد پورا نہیں ہورہا ہے۔ ہم گذشتہ قریب تیس برسوں سے بندوقوں کے سایے تلے زندگی گذر بسر کررہے ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ ان بندوقوں سے ہمارا کونسا مقصد پورا ہوا ہے‘۔