: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
: سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
بڑا مہربان نہایت رحم والا
انصاف کے دن کا حاکم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے تک قبول فرماتا ہیں (چنانچہ بندے کو مایوس نہ ہونا چاہئے)۔ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ ترمذی شریف)
حیدرآباد:بیرسٹر اسدالدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے کہا کہ ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے کھلی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور بلیک میل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کہ ایودھیا کی طرح گیان واپی اور کشن جنم بھوم کوبھی حوالے نہیں کرتے ہیں تو ہم وہ کریں گے جو 6دسمبر کو کیاگیا تھا۔ اس طرح سے یہ مسلمانوں کو کھلی دھمکی ہے اورتشدد کا اعلان کیا جارہا ہے۔ یہ ایک دھمکی کی طرح ہے تاکہ مسلما ں ڈر کر سیدھے ہوجائیں۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی ایم پی صدر مجلس نے پیر کو مختلف قومی انگریزی اور ہندی چیانلوں سے مساجد اور سی اے اے سے متعلق موض وعات پر بات چیت کے دوران ان خیالات کااظہار کیا۔ بیر سٹر اویسی نے کہاکہ ان کی یہ بات جھوٹی ہیں اور یہ لوگ دائمی جھوٹے ہیں کیونکہ 3مقامات حوالے کرنے پر دوسری مسائل نہیں ہوں گے جو کہا جارہا ہے غلط ہے۔ انہیں لوگوں نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کیا تھا کہ بابری مسجد کو جھوا نہیں جائے گا لیکن انہوں نے مسجد کو منہدم کردیا اور جب بابری مسجد کا فیصلہ آیا تو سبھی نے یہ کہا تھا کہ جمہوریت ختم ہوچکی ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ عقیدہ کی بنیاد پر دیاگیا جس کے نتیجہ میں تنازعات کا سیلاب بہہ رہا ہے۔ صدر مجلس نے سوال کیا کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو ہم سے یہ کہتے ہیں کہ ہماری مساجد ان کے حوالے کردیئے جائیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ملک میں 1991کے عبادت گاہوں کا قانون پارلیمنٹ میں کیو ں منظور کیاگیا۔ یہ قانون اب بھی موجود ہے۔ اس لئے فرقہ پرستوں کی یہ باتیں کہ ہم مساجد حوالے کردیں، یہ ان لوگوں کی ہندو تو ا اور اکثریتی سیاست کی ایک مثال ہے۔ 31جنوری کے واراناسی عدالت کے فیصلہ اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی گیان واپی سے متعلق رپورٹ سے متعلق سوال پر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے کہا کہ اس طرح کی باتیں اگر کی جائیں گی تو عبادت گاہوں کا قانون کہا باقی رہے گا۔ بابری مسجد کے ٹائٹل سوٹ کا مقدمہ اس طرح کے تنازعات کو کھولنے کا ذمہ دار ہے۔ صدر مجلس نے کہا کہ 31جنوری کو واراناسی کے ڈسٹرکٹ جج نے اپنی معیاد کے آخری دن جو فیصلہ سنایا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں پوجا کی اجازت دی جانی چاہئے۔ اس طرح سے انہوں نے کوئی وجہ یا قانونی سہارے کے بغیر یہ فیصلہ سنایا۔ اس لئے اس فیصلہ کو غلط قرار دیاگیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عبادت گاہوں کے قانون پر عمل کریں۔ بیر سٹر اویسی نے سوال کیا کہ کس طرح سے مسجد کے تہہ خانہ میں پوجا کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ یہ لوگ وارناسی عدالت کا فیصلہ اور اے ایس آئی رپورٹ کی بات کرتے ہیں۔ بابری مسجد کے مقدمہ کے تحت بابری مسجد میں کھدائی کی گئی تھی اور سروے بھی کیاگیا تھا جبکہ سروے اور کھدائی دو الگ چیزیں ہیں۔ کھدائی کی رپورٹ کو سپریم کورٹ نے قبول نہیں کیا تھا
اور واضح طور پر یہ کہا تھا کہ کوئی مندر توڑ کر اس جگہ بابری مسجد ایودھیا میں نہیں بنائی گی۔ اس طرح سے گیان واپی میں بھی کو ئی مذہبی مقام منہدم کرکے مسجد نہیں بنائی گئی ہے۔ اے ایس آئی کی رپورٹ کی 5رکنی بنچ میں موجود چیف جسٹس آف انڈیا بھی شامل تھے۔انہوں نے یہ کہا تھا کہ عبادت گاہوں کا قانون اس مقدمہ میں دستور کا بنیادی حصہ ہوگیا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ذیلی عدالتیں اس بات کو قبول نہیں کررہی ہیں۔ گیان واپی سے متعلق ایک طویل مقدمہ یا سمجھوتہ سے متعلق سوال پر بیرسٹر اویسی نے کہا کہ بابری مسجد کے مقدمہ سے پہلے ہی اسی طرح کا سوال کیا تھاکہ بابری مسجد حوالے کردیں اور دوسر ے تنازعات کو بھول جائیں اب دوسری مرتبہ اس طرح کا سوال کیاجارہاہے۔ صدر مجلس نے کہاکہ ان کا یہ خیال ہے کہ یہ بات یہاں ختم نہیں ہوگی اور یہاں نہیں رکے گی۔ اس لئے ہم قانونی طور پر عدالتوں کوبتائیں گئے کے ہمارا موقف کیا ہے؟ہمارے پاس کیا دستاویزات موجود ہیں؟بیرسٹر اویسی نے کہا کہ گیان واپی میں مسلمان مسلسل نمازاداکرتے ہیں جبکہ بابری مسجد کے مقدمہ میں یہ کہا گیاتھا کہ مسلمان وہاں نماز نہیں پڑھ رہے ہیں۔ صدر مجلس نے واراناسی مقدمہ کے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ کسی کے گھر میں گھس یہ کہا جارہا ہے کہ چند کمرے آپ استعمال کرلو چند کمرے ہم استعمال کریں گے۔ بیرسٹر اویسی نے حیرت کا اظہار کیا کہ مسجد کے نیچے کوئی ہندو اسٹرکچر کی موجود گی کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس کے باوجود ہٹ دھرمی کی جارہی ہے۔سی اے اے سے متعلق سوال پربیرسٹر اویسی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں سی اے اے قانون جو منظور کیاگیا وہ مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا غلط قانون ہے اس لئے انہوں نے اس قانون کی کاپی کو پارلیمنٹ میں پھاڑ دیاتھا کیونکہ گاندھی جی نے جنوبی افریقہ میں غلط قانون کو پھاڑ کر مثال قائم کی تھی۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ ہم آج بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں اگر کوئی ہندو ہیں اور وہ بھارت آنا چاہتے ہیں تو حکومت انہیں طویل مدتی ویزا فراہم کرے اور اس کے بعد انہیں شہریت فراہم کرے۔ ایسا کرنے سے انہیں کون روک رہا ہے؟انہوں نے سوال کیا کہ کیا نریندر مودی کے اقتدار میں آنے سے قبل ان تینوں ممالک کے آنے والے ہندووں کو شہریت نہیں دی گئی؟صدر مجلس نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مذہب کی بنیاد سی اے اے کا قانون بناکر غیر دستوری کام کیا ہے۔ بیر سٹر اویسی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سی اے اے کو این پی آر اور این سی آر سی سے جوڑ کردیکھنے کی ضرورت ہے۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ آسام میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں این آر سی منعقد ہوا۔ اس میں 20لاکھ لوگوں کے نام شامل نہیں ہوئے تو ہیمنٹ بسوا شرما کے پیٹ میں درد کیو ں ہورہا ہے؟سپریم کورٹ کی نگرانی میں منعقدہ این آر سی کو وہ کیوں نہیں مانتے؟صدر مجلس نے کہاکہ اس ملک میں مرد حضرات کے لئے ایساقانون بنانے کی ضرورت ہے جو شادیاں تو کرتے ہیں لیکن اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے مردوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔