the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات 2024 میں کون سی سیاسی پارٹی جیتے گی؟

کانگریس
جھارکھنڈ مکتی مورچہ
بی جے پی
۱۶ڈسمبر(ویب ڈسک)ہندوستان میں جہاں عورت کو مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھے ملا کر چلنے اور کام کرنے کی بات کہی جاتی ہے ،وہیں عورتوں سے عصمت ریزی کے واقعات میں اتنا ہی اضافہ ہورہا ہے۔ روز کسی نہ کسی شہر میں ایسے واقعات ایک عام بات ہو کررہ گئی ہے۔ عصمت ریزی اور جنسی ہراسانی کی شکایت روز پولیس اسٹیشن میں درج ہوتی ہیں۔ 
دنیا جس رفتار سے جارہی ہے اس میں مرد اور عورت دونوں کا ہاتھ ہے۔ عورتیں اپنی سونچ بدل کر ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے ،اس میں اس کا ساتھ اسکے گھر والے ’رشتے دار اورسماج دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتی ہے کہ میرے ساتھ سبھی کا ساتھ ہے اور میں محفوظ ہوں۔ لیکن جب وہ باہر کی دنیامیں قدم رکھتی ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ کسی جنگل میں آگئی ہے۔ اور اسے معلوم نہیں کہ وہ کب، کہاں اور کیسے کسی کی ہوس کا شکار بن جائے گی۔ 
عصمت ریزی کے واقعات ہندوستان میں کئی ہوئے لیکن ایک ایسا واقعہ جو سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ 16 ڈسمبر 2012 کی وہ رات جو ہر لڑکی کے دل میں گبھراہٹ اور خوف پیدا کرگئی۔ 16 ڈسمبر کی رات ایک چلتی بس میں ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کی گئی۔ یہ واقع اس وقت پیش آیا جب لڑکی فلم دیکھنے کے بعد اپنے دوست کے ساتھ بس میں سوار ہوکر مونیرکا سے دوارکا جا رہی تھی۔ لڑکی کے بس میں بیٹھتے ہی پانچ سے ساتھ مسافروں نے اسکے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ بس میں اور مسافر نہیں تھے۔ لڑکی کے دوست نے اسے بچانے کی کوشش کی۔ لیکن اُن لوگوں نے اسکے ساتھ بھی مارپیٹ کی اور لڑکی کے ساتھ عصمت ریزی کی۔ بعد ازاں اُن لوگوں نے لڑکی اور اسکے دوست کو دہلی کے مہیپال پور کے قریب وسنت وہار علاقے میں بس سے نیچے پھینک دیا۔ متاثرہ لڑکی کو نازک حالت میں دہلی کے صفدرجنگ ہاسپٹل میں بھرتی کرایا گیا۔ اس حادثہ کے خلاف اگلے دن کئی لوگوں نے سوشل میڈیا سائٹ فیس بک اور ٹیوٹر پر اپنا غصہ نکالا۔ دہلی پولیس نے کہا کہ بس ڈرائیور کو گرفتار کرلیا گیا اور اسکا نام رام سنگھ بتایا گیا۔عصمت ریزی کے دودن بعد دہلی پولیس کمشنر نرج کمار نے میڈیا کو بتایا کہ اس کیس میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جس بس میں عصمت ریزی ہوئی تھی اسے جنوبی دہلی میں آر کے پورم سیکٹر ۔3 سے برآمد ہوئی۔بس ڈرائیور نے اپنا جرم قبول کیا اور اسی کی نشاندہی پر اسکے بھائی مکیش،جم انسٹرکٹر ونئے گپتا اور پھل فروخت کرنے والا پون گپتا کو گرفتارکرلیا گیا۔ 
18 ڈسمبر کو اس معاملے کی گونج پارلیمنٹ میں سنائی دی۔ جہاں ان ملزموں کو پھانسی کی سزا کی مانگ کی گئی۔ اس وقت کے وزیرداخلہ نے کہا کہ دارلحکومت میں خواتین کی حفاظت کے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ ادھر متاثرہ لڑکی کی حالت نازک ہوتی جارہی تھی۔ اسے وینٹیلیٹر پر رکھا گیا تھا۔ لوگوں کے لیے انجان اس لڑکی کے لیے ساری دہلی سڑکوں پر نکل آئی اور احتجاج کرنے لگی۔صحت میں سدھار نہیں ہونے کی وجہ سے متاثرہ لڑکی کو 26 دسمبر 2012 کو سنگاپور کے ماؤنٹ الزبتھ ہسپتال لے



جایا گیا جہاں اس لڑکی نے 29 دسمبر 2012 کو دم توڑد یا۔

اس حادثہ کے بعد عدالت نے مجرموں کو سزا سنائی۔ پھر نربھئے جیسا ایکٹ بھی بنایا گیا۔ اسکے باوجود بھی کیا عصمت ریزی کے کیسوں میں کمی واقع ہوئی ہے؟ 
اتنا تو سبھی جانتے ہیں کہ اس لڑکی کے ساتھ کب کیا ہوا اور اس کیس میں آگے کیا کیا ہوا۔ اس مضمون کو لکھنا اور پھر سب کو یاد دلانا مقصد نہیں ہے۔ بلکہ اس لڑکی کے ساتھ جو ہوا ایسا نہ جانے کتنی معصوم لڑکیوں کے ساتھ اس سے بھی برا ہوا ہوگا، جو ہماری نظروں اور کانوں تک نہیں پہنچ سکا۔ کسی لڑکی نے خودکشی کرلی تو کسی نے خاموشی اختیار کرلی۔ 
الگ الگ ریاستوں میں خواتین کی حفاظت کے لیے مخلتف ٹیمیں اور سیکیورٹی بنائی گئی، کہیں پر موبائل ایپ بنایا گیا تو کہیں پر موبائل اور دستی گھڑی میں ایمرجنسی بٹن بنایا گیا۔ سڑکوں پر کیمرے لگائے گئے۔ لیکن ان شیطانی دماغوں والے انسانوں میں سے ہوس کے اس کیڑے کو کس طرح باہر نکالا جائے اس پر کام نہیں ہوا ہے۔ الٹا لڑکی کے کپڑوں پر باتیں کی گئی کہ لڑکیوں کو ڈھنگ کے کپڑے پہن کر باہر نکلنا چاہئے۔ 
اگر جنسی جرائم کی بات کریں تو نئی دہلی میں جنسی جرائم کی شرح دیگر میٹروپولیٹن کے شہروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ (تقریبا 18 گھنٹوں میں ایک عصمت ریزی) ہے۔
اپنی ہوس کا شکار بنانے والے ان خونی درندوں نے عورت کو صرف استعمال کی اشیا سمجھا ہے۔ استعمال کیااور چھوڑ دیا یا پھر انکی زندگی بد سے بدتر بنادی۔ 
اس مضمون میں صرف ایک واقعہ کو بتایا گیا ہے لیکن ایسے واقعات ہر روز کسی نہ کسی شہر میں رونما ہورہے ہیں۔ کہیں پر عصمت ریزی کے بعد زندہ چھوڑ دیا گیا تو کہیں پر مار دیا گیا تو کچھ کو جلا دیا گیا۔ 
حال ہی میں لکھنؤ میں ایک نابالغ لڑکی سے عصمت ریزی کی گئی جو کینسر جیسے مرض میں مبتلا تھی۔ وہ اپنے گھر سے کچھ سامان لینے کے لیے نکلی تھی اور ہوس کا شکار ہوگئی ،اور ایک بے جان کھلونے کی طرح سڑک کنارے چھوڑدیا گیا،حد تو یہ ہوگئی جب اس نے کسی سے مدد مانگی تو اس شخص نے بھی اس کے ساتھ عصمت ریزی کی۔
اب تو ماحول ایسا ہوگیا کہ کس پر بھروسہ کریں اور کس پر نہ کریں۔ لڑکی اکیلے اپنے گھر سے نکلنے کی ہمت نہیں کرپارہی ہے۔ ہمارا یہ سوچنا غلط ہے کہ یہ صرف گاؤں اور دیہاتوں میں ہورہا ہے ایسا بالکل نہیں ہے یہ واقعات جتنے دیہاتوں میں ہورہے ہیں اس سے زیادہ شہروں میں ہورہے ہیں۔ ہمیں لڑکیوں کے پہنوائے سے زیادہ شیطانی دماغ والے مرد وں کی گندی سونچ پر کام کرنا ہوگا۔ 
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.