نئی دہلی 6 نومبر(یو این آئی) آر ایس ایس کے اعلیٰ عہدہ داروں نے آج قوم کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی نوعیت کےاجودھیا فیصلے پراکثریت کا ردعمل محتاط ہوگا لہذا اقلیت کسی نفسیاتی خوف کا شکار نہ رہے۔
سنگھ کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر کرشن گوپال اور پرچارک رام لال نے یہاں اردوکے اہم اخبارات، اردو نیوز ایجنسیوں اور اردو ٹی وی چینلوں کے نمائندوں سے ایک ملاقات میں ان سے درخواست کی کہ وہ اجودھیا فیصلے سے پہلے اور فیصلہ سامنے آنے کے بعد کسی ایسے ردعمل کی خبر کو منہ نہ لگائیں جن سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل پڑ سکتا ہو۔ ڈاکٹر گوپال نے کہا کہ ’’ مسلمان بے خوف رہیں اور کسی اندیشے کو دل میں جگہ نہ دیں‘‘ رام لال نے کہا کہ ’’ انشا اللہ سب اچھا ہوگا‘‘۔اس ملاقات کا اہتمام انڈیا اسلامک کلچرل سنٹرل کے سربراہ سراج الدین قریشی نے کیا تھا۔
اکثریت کی نمائندگی کرنے والے دونوں رہنماوں نے امید ظاہر کی کہ اقلیتی فرقے کے ذمہ داران بھی ملک کو انتشار سے بچانے کے لئے اسی جذبے سے کام لیں گے تاکہ قومی اتحاد و یگانگت کے ایک نئے عہد کا آ غاز ہو۔
ڈاکٹر گوپال نے کہا کہ دونوں فرقوں کو از سر نو اس ادراک سے کام لینا چاہئے کہ ہندستان دنیا کے دیگر ملکوں سے ایک الگ پہچان رکھتا ہے جہاں ایک سے زیادہ مذہبی اورنظریاتی حلقے روادری کے نام ایک دوسرے کو محض برداشت نہیں کرتے بلکہ دل سے قبول کرتے ہیں۔کسی
ملک کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا وہاں ہم مذہبوں میں وہ روادی نہیں جو ہندستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا بعض تاریخی غلطیوں کے باوجود ہندستانی رواداری’’ ایک دوسرے کو برداشت کرنے والی نہیں بلکہ قبول کرنے والی ہے‘‘
مسٹر رام لال نے کہا کہ ہر ناموافق واقعے کو کسی نظریاتی تنظیم یا جماعت سے جوڑ کر دیکھنے سے اکثریت اور اقلیت دونوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ اس سے غلط فہمیوں کو راہ دینے والی دوریاں بڑھیں گی۔یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اکثریتی اور اقلیتی معاشرے بالترتیب کسی سنگھ یا کسی تنظیم کے کنٹرول میں نہیں۔اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی آنکھ بند کر کے بھروسہ نہ کیا جائے۔
ڈاکٹر گوپال نے اردو اخبار نویسوں کو مشورہ دیا کہ وہ آرٹیکل اور کالموں کے ذریعہ پسند اور ناپسند میں الجھے لوگوں کو صحیح اور غلط میں فرق کرنا سکھائیں اور ایک ایسے رابطے کو فروغ دیں جو مفاہمت کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔
ہندو معاشرے کو متوازن بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حملے اور عبادت گاہیں توڑنے کے واقعات کے پس منظر میں اجودھیا مقدمہ اگر سرے سے چلتا ہی نہیں تو ابتک کھائیاں پٹ چکی ہوتیں۔بہر حال وقت کا تقاضہ ہے کہ آنے والے فیصلے کو ہار جیت کی لڑائی پر محمول کرنے کے بجائے ایک درمیانی راہ کے طور پر ہم سب تسلیم کریں ’’ مسلمان بے خوف رہیں اور کسی اندیشے کو دل میں جگہ نہ دیں‘‘۔