نئی دہلی ، 13 ستمبر (ایجنسی) سپریم کورٹ میں اجودھیا معاملے کی آج 23 ویں دن کی سماعت میں ، مسلم فریق نے متنازعہ جگہ پر اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔
سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس ایس اے بوبڈے ، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبد النظیر کی آئین بنچ کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بابری مسجد متنازعہ جگہ پر موجود تھی ۔انہوں نے اس کے لئے آئین بنچ کے سامنے کچھ دستاویزات کا حوالے پیش کئے۔
مسٹر جیلانی نے پی ڈبلیو ڈی کی اس رپورٹ کا بھی
حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ 1934 کے فرقہ وارانہ فسادات میں مبینہ طور پر مسجد کے ایک حصے کو نقصان پہنچا گیا تھا اور پی ڈبلیو ڈی نے اس کی مرمت کروائی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ 1934 سے 1949 تک متنازعہ جگہ پر باقاعدہ طور پر نماز ہوتی تھیں۔ اس کے حق میں بھی انہوں نے دستاویزات بھی پیش کئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں 1934 کے فرقہ وارانہ فسادات میں عمارت کو نقصان پہنچا تھا۔
واضح ر ہے کہ آج سنی وقف بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے دوپہر کے کھانے کے وقفے تک جرح سے رخصت لے لی تھی ۔ اس کی وجہ سے مسٹر جیلانی نے بورڈ کی جانب سے محاذ سنبھالا تھا۔