: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
: سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
بڑا مہربان نہایت رحم والا
انصاف کے دن کا حاکم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے تک قبول فرماتا ہیں (چنانچہ بندے کو مایوس نہ ہونا چاہئے)۔ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ ترمذی شریف)
نئی دہلی: اتراکھنڈ میں یکساں سیول کوڈ کو نافذکرنے کے ریاستی حکومت کے فیصلہ پر صدر جمعیتہ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا قانون منظور نہیں جو شریعت کے خلاف ہو۔ منگل کو جاری ایک بیان میں کہا کہ مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کرسکتا ہے لیکن اپن شریعت اور دھرم سے ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہاکہ اترا کھنڈ میں آج یکساں سیول کوڈ کا جو بل منظور ہوا ہے اس میں درج فہر ست قبائل کو ہندوستان کے آئین کی دفعہ 366کے بات 25کی ذیلی دفعہ 342کے تحت نئے قانون سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے اور یہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ 21کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔ مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اگر آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جاسکتاہے تو آئین کی دفعہ 25،26 کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی ہے، جن میں شہریوں کے بنیادی حقو ق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، اس طرح دیکھا جائے تو یکساں سیول کوڈ کو بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے، اگر یکساں سیول کوڈ ہے تو پھر شہریوں کے درمیاں امتیاز کیوں؟انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری لیگل ٹیم اس بل کے قانونی پہلوو ں کا جائزہ لے گی اس کے بعد قانونی چارہ جوئی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا اپنے مذہبی امور میں کسی طرح کی بے جامداخلت کو برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان جیسے تکثیر ی ملک جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے اپنے اپنے اعتقادات اور مذہبی ریت ورواج پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہیں وہاں آج یکساں سیول کوڈ کا نفاذ آئین میں شہریو ں کو دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولر آئین کو اپنی حالت میں باقی رکھنے کا ہے،کیونکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور دستور میں سیکولر ازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے، اس لئے یکساں سول کوڈ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے اور ملک کی یکجہتی اور سا لمیت کے لئے بھی نقصاندہ ہے، یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے لئے،دفعہ 44کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یکساں سیول کو کی بات تو آئین میں کہی گئی ہے جبکہ دفعہ 44رہنما اصول نہیں ہیں، بلکہ ایک مشور ہ ہے، لیکن آئین کی ہی دفعہ
25،26اور 29کا کوئی ذ کر نہیں ہوتا جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے، اس کے باوجود ہماری حکومت کہتی ہے کہ ایک ملک ایک قانون ہوگا اور یہ کہ ایک گھر میں دو قانون نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ عجیب وغریب بات ہے، ہمارے یہاں کی IPC‘CRPCکی دفعات بھی پورے ملک میں یکساں نہیں ہیں، ریاستوں میں اس کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے، ملک میں گاو کشی کا قانون بھی ایک نہیں ہے جو قانون ہے وہ پانچ ریاستوں میں نافذ نہیں ہے ملک میں ریزرویشن کے تعلق سے سپریم کورٹ نے اس کی حد 50فیصد مقرر کی ہے، انہو ں نے سوال کیا کہ جب پورے ملک میں سول لاء ایک نہیں ہے تو پھر ملک بھر میں ایک فیملی لاء لاگو کرنے پر زور کیوں؟ہمارا ملک کثیر تہذیبی اور کثیر مذہبی ملک ہے، یہی اس کی خصوصیت بھی ہے، اس لئے یہاں ایک قانون نہیں چل سکتا، جو لوگ دفعہ 44کی آنکھ بند کرکے وکالت کرتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ اسی دفعہ کے تحت یہ بات بھی کہی گئی اور یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ پورے ملک میں شراب پر پابندی لگائی جائے، امیر غریب کے درمیان کی خلیج کو ختم کیا جائے، سرکا ر یہ کام کیوں نہیں کرتی؟دوسری جانب جو چیزیں اختلافی ہیں اسے ایشو بناکر آئین کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہمارے جو فیملی لاء ہیں وہ انسانوں کا بنایا قانون نہیں ہے، وہ قرآن مجید وحدیث سے ماخوذ ہیں، اس پر فقہی مباحث تو ہوسکتے ہیں، لیکن بنیادی باتوں پر ہمارے یہاں کوئی اختلاف نہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں نت نئے جذباتی اور مذہبی مسائل کھڑے کرکے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مسلسل خوف اور انتشار میں مبتلاء رکھنا چاہتی ہے لیکن مسلمانوں کو کسی بھی طرح کے خوف اور انتشار میں مبتلاء نہیں ہونا چاہئے، ملک میں جب تک انصاف پسند لوگ باقی ہیں ان کو ساتھ لیکر جمعیتہ علماء ہند ان طاقتوں کے خلا ف اپنی جنگ جاری رکھے گی، جو ملک کے اتحاد اور سا لمیت کے لئے نہ صرف خطرہ ہے بلکہ سماج کو تعصب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے درپے ہیں،انہوں نے کہا کہ اس ملک کے لئے نفرت کو کامیاب ضرور کہا جاسکتا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ آخری اورحتمی فتح محبت کی ہونی ہے۔