ملک کو آزاد ہوئے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے مگر آج بھی ملک کے بیشتر حصوں میں دلت ‘ قبائیلی اور دیگر پسماند ہ طبقات کو چھوت اچھوت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔حالانکہ دستور ہند میں اس بات کو جرم قراردیا گیا ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ذات پات کی بنیاد پر ذلت آمیز سلوک کیاجاتا ہے تو وہ قابل سزا عمل ہوگا۔
اس کے باوجود ملک کے کونے کونے سے اس طرح کی خبریں منظر عام آتی ہیں کہ دلت ہونے کی وجہہ سے مرد اور عورت کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہے ۔
اعلی ذات والو ں کے سیاسی دباؤ میں متعلقہ انتظامیہ کچھ کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے اور ہوسکتا ہے انتظامیہ
کو خود یہ منشاء ہو کہ دلت ‘ قبائیلی اور دیگر پسماندہ طبقات کے اندر احساس کمتری پیدا کی جائے تاکہ وہ نہ صرف اقتدار سے دور ہیں بلکہ’’ منوسمرتی‘‘ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کریں ۔
اسی طرح کا ایک واقعہ مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں کی سرپنچ انتیا کے ساتھ پیش آیا ہیں جنہیں محض اس لئے ترنگا لہرا نہیں دیاگیا کیونکہ ان کا تعلق دلت سماج سے ہے ۔
واقعہ کے بعد سرپنچ انتیا نے پولیس میں اس کی شکایت کی اور کمیرے کے سامنے اس بات کا خلاصہ کیا کہ کس طرح سے اونچی ذات والوں نے انہیں ترنگا لہرانے سے روکا ۔پیش ہے ویڈیو ۔