اسلام آباد، 31 دسمبر (یو این آئی) افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے کابل کی جانب طالبان کے بڑھتے ہوئے قدموں کے درمیان ملک چھوڑنے کے فیصلے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت طالبان اقتدار کی آسانی سے منتقلی پر کسی معاہدے کے لیے تیار نہیں تھا اور ان کے پاس کابل چھوڑنے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا۔
مسٹر غنی نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے 15 اگست 2021 کو اچانک سے کابل چھوڑنے کے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو تیزی سے دارالحکومت کی طرف بڑھتے دیکھ کر ان کے ایک مشیر نے انھیں چند لمحوں میں کابل
چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے خود پر بڑی رقم لے کر بھاگنے کے الزامات کی سختی سے تردید کی۔
مسٹر غنی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا اس دن صبح تک ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ دوپہر بعد ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
قبل ازیں رواں ماہ سابق صدر حامد کرزئی نے مسٹر غنی پر ملک کو منجدھار میں کر بھاگنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسٹر غنی کا اس طرح فرار ہونا کسی نہ کسی طرح ان کی حکومت کے مذاکرات کاروں اور امن کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ کے طالبان کے ساتھ کسی طرح کے معاہدے پر پہنچنے کا موقع ختم ہو گیا تھا۔