: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
: سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
بڑا مہربان نہایت رحم والا
انصاف کے دن کا حاکم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے تک قبول فرماتا ہیں (چنانچہ بندے کو مایوس نہ ہونا چاہئے)۔ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ ترمذی شریف)
حیدرآباد21مئی (یواین آئی)حیدرآباد کے علاقہ بورابنڈہ کے این آر آر پورم سائٹ تری کا ایک پرانا مکان معمولی نظر آتا ہے تاہم اس کی امید،بین طبقہ ہم آہنگی کی کہانی غیر معمولی ہے۔گذشتہ دو ماہ کے دوران جب کبھی تبلیغی جماعت کا لفظ سننے میں آیا،اس لفظ کو صرف تنازعہ کی حد یا لوگوں کو ہندو اور مسلم کے خطوط پر تقسیم کرنے کے پس منظرمیں سناگیا،اس کے ذریعہ منافرت پھیلانے والوں کو ایک موقع ملا۔اس دوران کورونا جہاد جیسا ناگوار لفظ بھی بعض متعصب افراد سے سناگیا لیکن حیدرآباد کے اس چھوٹے سے محلہ میں لوگ،دہلی کے تبلیغی جماعت کے مرکز میں کورونا سے متاثرہونے کے بعد اس سے روبہ صحت شخص کوہمدری اور شفقت کے ساتھ ہیرو کی طرح شاندار استقبال کرتے ہوئے منافرت پھیلانے والوں کا مقابلہ کرنے اوران کے دعوے کو غلط ثابت کرتے ہوئے اپنے جذبہ کو تحریک میں تبدیل کرنے کے لئے آگے آئے۔اس طرح کے استقبال کے ذریعہ ان افراد نے یہ ثابت کردیا کہ شہر حیدرآباد میں گنگاجمنی تہذیب ابھی باقی ہے اوریہ واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔روبہ صحت شخص کا تالیوں کی گونج میں پھول نچھاور کرتے ہوئے بلالحاظ مذہب وملت استقبال کیاگیا۔اس موقع پر بابا فصیح الدین ڈپٹی مئیر گریٹرحیدرآباد میونسپل کارپوریشن(جی ایچ ایم سی) نے گلدستہ پیش کرتے ہوئے ان کا شاندار استقبال کیا۔محمد رفیع اللہ خان جو روبہ صحت ہوکر اپنے گھر پہنچے، اس تعلق سے بتاتے ہیں کہ 5 اپریل کو وہ شہر حیدرآباد کے گاندھی اسپتال میں داخل کئے گئے جو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے علاج کے لئے ایک بڑے مرکز کے طورپر ابھرا ہے۔تقریبا 43دن اسپتال میں وہ زیرعلاج رہے۔اسپتال سے روبہ صحت ہونے کے بعد گھر واپسی پر ان کا ہیرو کا طرح استقبال کیاگیا۔سڑک کی دونوں جانب لوگوں
نے تالیاں بجاکران کا استقبال کیا۔ساتھ ہی ایک عالم دین، ایک پادری اور ایک ہندو خاتون جو موظف گزیٹیڈ آفیسر نے ان کا شاندار خیرمقدم کیا۔ہندو خاتون نے جہاں ان کی آرتی اتاری تو پادری نے ان کے لئے دعائیہ کلمات اداکئے اور عالم دین نے ان کو دعا دی۔رفیع صاحب نے کہا”میری یہ ابتدا میں سونچ تھی کہ چونکہ میں بیماری سے روبہ صحت ہورہا ہوں تو پتہ نہیں میرے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کیاجائے گاتاہم محلہ پہنچنے پر میرے کے لئے حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ میرابین طبقاتی استقبال کیاگیا۔میرا یہ احساس تھا کہ روبہ صحت ہونے کے بعد اس بیماری کے تعلق سے پیداخدشات کے درمیان میری طرف کوئی بھی پلٹ کر نہیں دیکھاگاکیونکہ عالمی سطح پر اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیاجارہا ہے اور سماجی فاصلہ کے نام پر دوررہنے کی بات کہی جارہی ہے لیکن جب میں اپنے محلہ پہنچا تو تالیوں کے ساتھ میرا ستقبال کیاگیا جس پر مجھے کافی مسرت ہوئی۔تمام افراد بالخصوص ہندو،مسلم،عیسائی طبقات کے لوگ بھی میرااستقبال کرنے والوں میں تھے“۔ان کاکہنا ہے”ابتدا ہی سے اس علاقہ میں ہندو،مسلم لوگ ایک دوسرے سے مل جل کر رہتے ہیں۔میں میرا استقبال کرنے والوں کا شکرگذار ہوں،میری وجہ سے اس علاقہ کے 70تا80گھروں میں رہنے والوں کو تکلیف ہوئی کیونکہ میرے مثبت پائے جانے کے بعد اس علاقہ کوکنٹینمنٹ زون میں تبدیل کردیاگیاتھا۔میری وجہ سے ان مکانات کے افراد گھروں سے باہر نہیں نکل پارہے تھے۔اس کے لئے میں ان تمام افراد سے معذرت خواہی کرتا ہوں۔یہ افراد میرے لئے قابل احترام ہیں۔جس طرح میرا استقبال کیاگیا اورمذہبی رواداری کا مظاہرہ کیاگیا اس سے اپنے آپ کوجدا رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ہمیں تمام کے ساتھ رہنا ہے“۔