میرٹھ، 30اکتوبر (یو این آئی+ کامران زبیری) مغربی ثقافت کے کافی قریب رہنے کے باوجود اندرا گاندھی نے آخری دم تک اس ملکی ساخت اشیاء کا ساتھ نہیں چھوڑا جو آنکھ کھلتے ہی ملک کی آزادی کے ماحول سے ان میں سما گئی تھی۔
معروف امریکی رائٹر اور بایو گرافر کیتھرین فرینک کی کتاب ’اندرا گاندھی‘ میں ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے ملکی ساخت اشیا ء سے محبت کا دیدار ہوتا ہے۔ اس کے مطابق 31 اکتوبر 1984 کو جب اندرا گاندھی کا قتل ہوا تھا تب بھی وہ ملکی زعفرانی ساڑی زیب تن کیے ہوئی تھیں جو آج بھی جان لیوا گولی کے سوراخوں کے خاموش نشانات کے ساتھ اندرا گاندھی میموریل میں محفوظ ہے۔یہ ساڑی گواہ ہے اس مضطرب سیاست کی جو آپریشن بلیو اسٹار کی کوکھ سے وجود میں آئی تھی۔خاص طورپر ہاتھ سے کات کر بنائی گئی ساڑی ملک کی آزادی کے لیے قوم پرستی کے جوش کی نمائندگی کرتی رہی ہے۔ مہاتما گاندھی کے 1906 میں شروع کیے گئے سودیشی تحریک سے متاثر
رہی اندرا گاندھی کو ہینڈ لوم ساڑی کی ماہر بھی تسلیم کیا جاتاتھا۔
کیتھرین فرینک نے اپنی کتاب میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اندرا گاندھی نمائش کی سودیشی محبت کا اندازا اس امر سے لگایا جانا مشکل نہیں ہوگا کہ 26 مارچ 1942 کو فیروز گاندھی سے شادی کے دوران انہوں نے دلہن کے بیش قیمتی لباس کے بجائے ایک عام سی گلابی ساڑی زیب تن کر رکھا تھا۔ بھلا اس سے قیمتی ساڑی ان کے لیے کیا ہوتی جو ان کے والد جواہر لال نہرو نے اپنے جیل کے سفر کے آخری دور میں بذات خود کات کر بنی تھی۔ اتنا ہی نہیں اس کے لیے کھادی مہاتما گاندھی کے ہاتھوں بنائی گئی تھی۔
کتاب کے مطابق اندرا گاندھی نے اپنے 'سودیشی پریم' کوآئندہ نسل تک بھی پہنچانے کی کوشش کی۔ اس کے لیے انہوں نے 23 ستمبر کو بیٹے سنجے گاندھی کی شادی کے موقع پر بہو مینکا کو والد نہرو کے ذریعہ جیل میں کاتے گئے سوت سے بنی ایک کھادی کی ساڑی کے علاوہ 31 نئی شاندارساڑیاں اور زیورات بطور تحفےدیے۔