میرٹھ۔خبر ہے کہ اترپردیش کے ضلع میرٹھ میں منگل کے روز ایک لڑکی کے ساتھ مبینہ ہراسانی پر کچھ مسلم لڑکوں کے ساتھ ہندو یوا وہانی کے کارکنوں کے ساتھ مارپیٹ کی جس کے بعد حالت کشیدگی کا شکار ہوگئے ۔
ہندو یوا وہانی کے کارکنوں نے واقعہ کی منظر کشی کرنے والے ایک رپورٹر کے ساتھ بھی مبینہ طور پر بدسلوکی کی ہے۔
ریاست میں پہلے سے ہی یوم جمہوریہ کے روز میرٹھ سے دو سو کیلومیٹر فاصلے پر واقعہ کاس گنج میں پیش ائے فرقہ وارنہ کشیدگی کے سبب تناؤ کا ماحول ہے۔ صحافی کی شکایت کے بعد پولیس نے ہندو یوا وہانی کے اسٹیٹ سکریٹری ناگیندر تومار کو گرفتار کرلیا ہے ۔
ایک مقامی اخبار کی خبر کے مطابق واقعہ میں ملوث ہندو یوا وہانی کے دیگر لیڈرس کو بھی گرفتار کرلیاگیا ہے۔پولیس کے مطابق ہجوم کا دعوی ہے کہ زاہد خان نامی ایک شخص دوسرے طبقے کی لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کررہا تھا۔
right;">
یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ ہجوم کی قیادت تومار کررہا تھا جس نے مہان پوری علاقے میں چار لوگوں کے ساتھ مارپیٹ کی ہے۔تاہم تومار کا دعوی ٰ ہے کہ وہ چاروں کو پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا مگر ’’ اس کے گروپ کے چند لوگوں نے چاروں کے ساتھ مارپیٹ شروع کردی‘‘۔
خان کے گھر والوں کا کہنا ہے وہ زاہد خان اور وہ لڑکی کئی سالوں سے دوست ہیں۔ان لوگوں نے لڑکی کے گھر والوں کو بتایا کہ وہ لوگ زاہد کو ہراسانی کے کیس میں پھنسا رہے ہیں۔خان کے بڑے بھائی شاریق نے ٹی او ائی کو بتایا کہ ’’ ان دونوں میں کچھ غلط فہمی پیدا ہوگئی ۔
اور اس کو دائیں بازو گروپ کے لوگوں کو ہراسانی سمجھ لیا۔ دونوں کے گھر والے آپس میں بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرلینا چاہتے ہیں‘‘۔سپریڈنٹ آف پولیس مان سنگھ چوہان نے کہاکہ کارکنوں کو ’’ ہاتھ میں قانون لینے کا‘‘ اختیار نہیں ہے او رکہاکہ ایک بار شکایت مل جانے پر کاروائی کی جائے گی۔