حیدرآباد ۔ 27 ۔مارچ :- تلنگانہ قانون ساز اسمبلی میں آج اس وقت عجیب منظر دیکھا گیا جب حکومت کی حلیف مقامی جماعت نے چار سال کی دوستی کے بعد آخر کار دوست کے رویہ پر شرمندگی محسوس کی۔ گزشتہ چار برسوں تک حکومت کے ہر اقدام کی تائید کرنے والی مقامی جماعت کا رویہ آج ایوان میں کچھ بدلا بدلا دکھائی دیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حکومت نے بجٹ تو منظور کرلیا لیکن مقامی جماعت کے مطالبات کو نامنظور کردیا۔ حتیٰ کہ گزشتہ اسمبلی اجلاسوں کی طرح اپنی دوست جماعت کے کان خوش کرنے کی تک بھی کوشش نہیں کی گئی۔ پرانے شہر کیلئے 5000 کروڑ کے ترقیاتی پیاکیج ، 12 فیصد مسلم تحفظات، وقف بورڈ کی ابتر صورتحال اور آلیر انکاؤنٹر کی تحقیقاتی رپورٹ جیسے امور کا چیف منسٹر نے تذکرہ تک نہیں کیا، جس سے دوست جماعت کو مایوس ہوکر کہنا پڑا کہ ’’ہم کو شرمندگی ہورہی ہے کہ ہم اپنے دوست کا کس طرح دفاع کریں‘‘۔ چیف منسٹر نے بجٹ پر مباحث کے وقت تیقن دیا تھا کہ اقلیتوں کے مسائل پر وہ تصرف بل پر مباحث کا جواب دیتے ہوئے تفصیل سے تذکرہ کریں گے لیکن آج تصرف بل پر چیف منسٹر نے جواب دیتے ہوئے اقلیتوں کے مسائل کو یکسر فراموش کردیا۔ صرف ضابطے کی تکمیل کیلئے ترقی کے وعدے اور گزشتہ سیشن کے تیقنات پر عمل آوری کی بات کہی گئی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام بالخصوص پرانے شہر میں حکومت کے خلاف بڑھتی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے دوست جماعت نے بھی اپنے موقف کو تبدیل کرلیا ہے تاکہ وہ خود عوامی ناراضگی کا شکار نہ ہوں ۔ اقلیتی بہبود کے بجٹ کی گزشتہ سال کے مقابلہ زائد اجرائی کو یقینی بنانے کیلئے کی گئی بارہا اپیلوں کو چیف منسٹر نے نظرانداز کردیا ۔ گزشتہ سال 846 کروڑ جاری کئے گئے تھے جبکہ جاریہ سال 816 کروڑ کی اجرائی عمل میں آئی ہے۔ وعدوں اور اعلانات کے سلسلہ میں حکومت کی سردمہری نے حلیف جماعت کے فلور لیڈر کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ’’ہم آپ کے دوست ہیں اور
ہر سطح پر آپ کا دفاع کرتے ہیں لیکن ہم کو شرمندگی ہورہی ہے کہ اپنے دوست کا کس طرح دفاع کریں۔ آپ ہمارے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے دوست ہیں، یہ کہنے میں شرمندگی کا احساس ہورہا ہے اور یہ شرمندگی ہمارے لئے اور آپ کیلئے بھی ہے‘‘۔ دوست کے اظہار شرمندگی کا چیف منسٹر پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے اپنے جواب میں پرانے شہر اور اقلیتوں کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا۔ گزشتہ سیشن میں چیف منسٹر نے جو 17 وعدے کئے تھے ، وہ جوں کے توں برقرار ہیں۔ اجلاس کے بعد تلگو دیشم کے بعض ارکان یہ کہتے ہوئے باہر آئے کہ اسمبلی میں آج ’’دوست، دوست نہ رہا‘‘۔ ظاہر ہے کہ ایسی دوستی سے کیا حاصل جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہ ہو۔
مسلمانوں سے ہمدردی یا مہاویر ہاسپٹل کی اراضی؟
حکومت کی حلیف جماعت نے اسمبلی میں اچانک شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کیا مسلمانوں سے ہمدردی کی ہے یا پھر مہاویر ہاسپٹل کی اراضی کے الاٹمنٹ میں تاخیر پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ارکان اسمبلی کے حلقوں میں گونج رہا تھا۔ ٹی آر ایس کے ارکان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ چار برسوں تک ہر تقریر میں چیف منسٹر کی تعریفوں کے پل باندھنے اور حکومت کی شان میں قصیدے پڑھنے والے اچانک کیوں شرمندگی محسوس کر رہے ہیں؟ ارکان نے خدشہ ظاہر کیا کہ شاید مہاویر ہاسپٹل کی اراضی کے الاٹمنٹ میں تاخیر سے دوست جماعت ناراض ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نئے شہر کے علاقہ میں ہاسپٹل کے قیام کیلئے حکومت سے یہ اراضی الاٹ کرنے کی خواہش کی گئی اور تمام مراحل کی تکمیل کے بعد یہ فائل چیف منسٹر کے پاس ہے۔ اب جبکہ انتخابات قریب ہیں، دوست جماعت کو اندیشہ ہے کہ کہیں چیف منسٹر دیگر مطالبات کی طرح اراضی کے الاٹمنٹ کو ٹال دیں گے ۔ لہذا مسلمانوں سے ہمدردی اور پرانے شہر کی ترقی کے نام پر چیف منسٹر اور حکومت پر دباؤ بنانے کا یہ حربہ ہوسکتا ہے۔ معاملہ کچھ بھی ہو بہت جلد حقیقت منظر عام پر آجائے گی۔