راست:
گلبرگہ۔۔دکنی زبان و ادب کو بین الاقوامی سطح پر منفرد شناخت دلانے والے عظیم شاعر حضرت حضرت سلیمان خطیب کا آج سوواں یوم پیدائش ہے۔ دکنی لب و لہجے اور شاعری کی وجہ سے سلیمان خطیب نے دنیا بھر میں اپنا ڈنکا بجایا تھا۔ سلیمان خطیب کی شاعری کی خاص بات دکنی لب و لہجے میں مکالمہ نگاری تھی۔ دو کردارو ں کے درمیان ہونے والی بات چیت کو وہ اتنے سلیقے سے اشعار کے پیرہن میں ڈھالتے تھے کہ قاری و سامع محظوظ ہو جاتا تھا۔ چھورا چھوری، ہراج کا پلنگ، پہلی تاریخ، اٹھائیس تاریخ جیسی مزاحیہ نظمیں انکی شاہکار تخلیقات ہیں۔ اپنی تخلیقات میں انھوں نے معاشرے سے جڑے مسائل کو اٹھائے ہیں۔ اٹھائیس تاریخ کی نظم میں ایک کلرک کی بیوہ کا وہ کرب اس طرح سے بیان کرتے ہیں۔
جینا مرنا تمارا قرضے کیا
آج پھولاں ادھار لائی ہوں
یتا احسان ہم پو کرنا تھا
تنخواہ لینے کے بعد مرنا تھا۔
جہیز جیسی سماجی برائی پر بھی خطیب نے خوب چوٹ کی۔ ایک باپ کے درد کو انھوں نے چھورا چھوری نامی نظم میں خوب عمدہ طریقے سے پیش کیا۔
جس کی بچی جوان ہوتی ہے
اسکی آفت میں جان ہوتی ہے
بوڑھے ماں باپ کے کلیجے پر چٹان ہوتی ہے
جی میں آتا ہے اپنی بچی کو
اپنے ہاتھوں سے خود ہی دفنا دیں
لال جوڑا تو دے نہیں سکتے
لال چادر میں کیوں نہ دفنا دیں
یہ بھی دلہن ہے گھر سے جاتی ہے
موت مفلس کو کیا سہاتی ہے
یہ سہاگن ہے اس کو کندھا دو
ہم نے خون جگر سے پالا ہے
اس کی تربت پہ یہ بھی لکھ دینا
زرپرستوں نے مار ڈالا ہے۔
سلیمان خطیب نے26ڈسمبر1922کو موضع چٹگوپہ، تعلقہ ہنماآباد ضلع بیدر میں محمد صادق خطیب کے یہاں آنکھیں کھولی تھی۔60کی دہائی میں خطیب کو قومی سطح پر شہرت نصیب ہوئی۔ جس طرح سے غالب کا ایک ہی دیوان انھیں امر بنا گیا، اسی طرح سے خطیب کا بھی ایک ہی مجموعہ کلام "کیوڑہ کا بن" انھیں زندہ جاوید بنا گیا۔ کیوڑہ کا بن کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک اس کے کئی ایک ایڈیشن آ چکے ہیں اور کئی ایک زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہوا ہے۔ سلیمان خطیب کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 1976میں حکومت کرناٹک نے انھیں راجیہ اتسو ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ ادب کا شمس و قمر22اکتوبر1978کو ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا۔ چھورا چھوری، ہراج کا پلنگ، پہلی تاریخ جیسی مزاحیہ نظمیں انکی شاہکار
تخلیقات ہیں۔
۔ حضرت سلیمان خطیب روایتی قدروں، مشرقی تہذیبکے پاسدار و امین تھے۔ و تبدیلی و ترقی میں توازن چاہتے تھے۔۔ انکی ساری شاعری تنقید و اصلاح کے اطراف گھومتی ہے۔ انھوں نے اپنے تجربات، خیالات، احساسات، مشاہدات اور فکری پرواز کو ہکی پھلکی مزاحیہ دکنی پراہن میں ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کیا۔ خود سلیمان خطیب کا کہنا ہے کہ انھوں نے دکنی ماحول میں آنکھیں کھولی تھی اس لئے انھوں نے دکنی زبان کو اپنایا۔۔ خطیب ایک آئیڈئیل معاشرے کے متمنی تھے۔ انکے نزدیک ایک مہذب معاشرے کی اپنی تعریف و تشریح تھی۔ وہ اپنے اطراف ایسا ہی معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے، جہاں پر شیر اور بکری ایک گھاٹھ سے پانی پی سکے، جہاں محمود و ایاز میں کوئی فرق نہ ہو۔ جہاں بیٹی، بہو، ساس اور ماں میں کوئی تفریق نہ ہو۔ جہاں مزدور و مظلوم کی حق تلفی نہ ہو۔ جہاں ہر جانب خوشحالی ہو۔ جہاں رشتوں کا تقدس بحال رہے۔ ان ہی باتوں کو سامنے رکھ کر خطیب شاعری کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی دکنی شاعری کے ذریعے اصلاح معاشرہ کا وہی کام لیا جو فصیح و بلیغ شاعری کے ذریعے اقبال نے کیا۔ سلیمان خطیب کی شاعری کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ اپنی نصیحتوں کو طنز و مزاح کے پیکر میں ڈال کر ایسے نشتر چلاتے تھے کہ لوگ ہنستے مسکراتے ہوئے اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ خطیب اپنی شاعری ہنسے ہنسانے سے شروع کر تے ہیں۔ ہنسے ہنساتے غیر محسوس طریقے سے قاری کو ایسی ناہمواری پر لے جاتے ہیں کہ قاری کی نظریں بھی تنگ راہداری کو محسوس کر تی ہیں۔ خطیب نے نہ صرف معاشرے کے مرض کی نشاندہی کی بلکہ ایک حاذق حکیم اور نباض کی طرح اس کا علاج بھی بتایا۔
حضرت سلیمان خطیب نے جب شاعری کا آغٓاز کیا تو اسوقت دکن میں نشاط ثانیہ دستک دے رہا تھا۔ پرانی قدروں اور تہذیب کی بساط اٹھنے کو تھی۔ حکمراں طبقہ محکومی کا خطرہ محسوس کر رہا تھا، اس کے باوجود حکمران قوم اپنی روش نہیں بدل رہا تھا۔ سماج میں ناہمواریاں موجود تھیں۔۔ ایسے میں سلیمان خطیب نے نباض بن کرحالات کی نزاکت و سنگینی کو محسوس کیا اور مافی الضمیر کے اظہار کیلئے قلم کو وسیلہ بنایا اور اسوقت کے اخلاقی، سماجی و سیاسی مسئلوں کو طنز و مزاح کے پیراہن میں ڈھال کر عوام کے روبرو پیش کیا۔ خطیب کی شاعری میں زندگی کا ہر پہلو ملتا ہے۔۔ ادب کا شمس و قمر22اکتوبر1978کو ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا۔ دکن کے شہر گلبرگہ میں آپ سپرد خاک ہوئے۔