نئی دہلی/20اپریل(ایجنسی) انسانی حقوق کے ممتاز علمبردار اور دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کا آج یہاں انتقال ہوگیا۔ وہ 94 برس کے تھے۔جسٹس سچر اس وقت سرخیوں میں آئے جب مارچ 2005 میں یوپی اے حکومت نے ملک میں مسلمانوں کی حالت پر رپورٹ تیار کرنے کیلئے سچر کمیٹی کی تشکیل دی ۔ اس وقت سے اب تک نہ جانے کتنی مرتبہ سچر کمیٹی کا نام میڈیا اور عام عوام کے درمیان گونجتا رہا ہے اور مستقبل میں انہیں سچر کمیٹی کے حوالے سے یاد کیا جاتا رہے گا۔
جسٹس سچر 22 دسمبر 1923 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا لاہور ہائی کورٹ کے ممتاز فوجداری وکیل تھے۔ جسٹس راجندر سچر 1970 میں دلی ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جسٹس مقرر ہوئے تھے۔ وہ واحد جج تھے جنہوں نے ایمرجنسی میں حکومت کی ایمرجنسی سے متعلق ہدایات کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔
مسلمانوں کی اقتصادی ، سماجی اور تعلیمی صورتحال کی بنیاد
پر سچر کمیٹی نے ایک رپورٹ تیار کی تھی ۔ نومبر 2016 میں ان کی ان کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ۔ اس رپورٹ کو سچر کمیٹی رپورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ رپورٹ میں ہندوستان کے مسلمانوں کے ہر شعبہ میں بری طرح پسماندہ ہونے کے بات کہی گئی تھی۔ کمیٹی نے اقلیتوں کی صورتحال میں اصلاح کیلئے کئی اہم سفارشیں بھی کی تھیں۔ اس رپورٹ کو لے کر تنازعات بھی ہوئے ۔ جب بھی مسلمانوں کی اقتصادی ، تعلیمی اور سماجی حالات کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو سچر کمیٹی کا نام ضرور سامنے آتا ہے۔
جسٹس راجندر سچر اگست 1985 سے دسمبر 1985 تک دلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ انہوں نے 1952 میں شملہ میں وکیل کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ پھر وہ جج بنے ۔ پہلے انہیں دو سال کیلئے دہلی ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج بنایا گیا پھر ان کی مدت کار میں دو سال کی توسیع کردی گئی ۔ اس کے بعد وہ دہلی ہائی کورٹ کے مستقل جج منتخب کئے گئے۔ وہ سکم ہائی کورٹ کے ایکٹنگ چیف جسٹس بھی رہے۔ راجستھان ہائی کورٹ میں بھی انہوں نے کارگزار چیف جسٹس کے طور پر کام کیا۔