حیدرآباد..... تلنگانہ میں گرمی کی شروعات ہوگئی ہے اور درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔ ایسے افراد جو اپنا دوپہر کا وقت زیادہ تر سڑکوں پر گزارتے ہیں، کیلئے دن کا درجہ حرارت ناخوشگوار اور سخت ہوجاتا ہے۔ کئی افراد گھر سے نکلتے وقت اپنے ساتھ پانی کی بوتل لے جاتے ہیں تاہم چند گھنٹوں میں ہی یہ بوتل کا پانی گرم ہوجاتا ہے۔ لوگ اپنے ساتھ ریفریجریٹر یا واٹر کولر تو نہیں لے جاسکتے تاہم اب نئے طرز کی بوتلوں کے ذریعہ ایسا ممکن ہوسکتا ہے ۔ جی ہاں گرمی کی شدت کے دوران پیاس بجھانے کے لئے انوکھے انداز کی مٹی کی بوتل بازار میں لائی گئی ہیں جو پانی کو زیادہ وقت تک ٹھنڈا رکھنے میں کافی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
شہر حیدرآباد میں یہ انوکھی طرز کی بوتل لیجانے میں آسان ہیں۔ ان روایتی طرز کے ظروف کو عصری انداز میں ڈھالاگیا ہے ۔ یہ مٹی کی بوتلیں دراصل گجرات کے راج کوٹ کی ہیں اور ان کی قیمت 200روپے ہے۔ مغربی بنگال کے دار جلنگ سے تعلق رکھنے والے کمہار اجیت کمار جو شہر حیدرآباد کے بنجاراہلز علاقہ میں
مٹی کے برتنوںکی فروخت کر رہے ہیں،نے کہاکہ یہ ماحول دست بوتلیں نوجوانوں کی پسند بن گئی ہیں اور ان کی خوب ستائش بھی کی جارہی ہے۔ انوکھے انداز کی مٹی کی بوتلوں میں پانی کو ٹھنڈا ہونے کے لئے صرف نصف گھنٹہ درکار ہوتا ہے جبکہ کئی گھنٹوں تک ان میں پانی ٹھنڈا رہتا ہے۔یہ مٹی کی بوتلیں ہاتھ سے بنائی جاتی ہیں اور یہ قدرتی واٹر کولرز کاکام کررہی ہیں ۔
ان کی صفائی اور ان کو بھرنے کا کام بھی نہایت ہی آسان ہے کیونکہ قدرتی مٹی کا استعمال ان کو بنانے کے لئے کیاجارہا ہے چونکہ گرما کے موسم میں ریفریجریٹرز اور کولرز کی کافی طلب ہوتی ہے،مٹی کے گھڑے عموماً جن کو رنجن کہا جاتا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں واپس آگئے ہیں۔شہر حیدرآباد کے کئی مقامات پر سڑکوں کے کنارے مٹی کے برتن بنانے والوںنے ان کے اسٹالز لگائے ہیں۔یہاں پران مٹی کے برتنوںکی خریداری کرنے والوںکی بڑی تعداد دیکھی جارہی ہے۔مقامی کمہاروں کے علاوہ ایسے مٹی کے برتن پڑوسی ریاست آندھراپردیش کے علاوہ گجرات،مغربی بنگال اور چھتیس گڑھ سے بھی لائے جارہے ہیں ۔