: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
: سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
بڑا مہربان نہایت رحم والا
انصاف کے دن کا حاکم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے تک قبول فرماتا ہیں (چنانچہ بندے کو مایوس نہ ہونا چاہئے)۔ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ ترمذی شریف)
حیدرآباد: جناب اکبرالدین اویسی قائد مجلس مقننہ پارٹی نہ تلنگانہ قانون ساز اسمبلی میں کہا ہے کہ مرکز ہمیشہ تلنگانہ اور جنوبی ریاستوں کے ساتھ فنڈس کی فراہمی میں ناانصافی کررہا ہے۔ مرکزی محاصل میں ملک کی جنوبی ریاستوں کو ان کا جائزحق نہیں دیا جارہا ہے۔ بہتر معاشی مظاہرہ اور آبادی کی شرح میں کمی کے باوجود جنوبی ریاستوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور شمالی ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ گرانٹس اور فنڈس دیئے جارہے ہیں۔ اسمبلی تصرف بل پر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے قائد مجلس نے بتایا کہ آندھرا پردیش، کیرالا، ٹاملناڈو، کرناٹک اور تلنگانہ کو جو سنٹرل ٹیکس کا حصہ دیا گیا وہ 16فیصد ہے، اس کے مقابلہ میں اتر پردیش کو 2لاکھ 18ہزار کروڑ روپئے فراہم کئے گئے جو 18فیصد ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ریاستوں کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے۔ جناب اکبرالدین اویسی نے بتایا کہ 31مارچ 2025تک ریاست ریاست کا عوامی قرض 4لاکھ10ہزار کروڑ تک پہونچ جائے گا۔ انہوں نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ شادی مبارک اور کلیانا کشمی اسکیمات کے زیر التوا ایک لاکھ سے زائد درخواستوں کی یکسوئی کے لئے فوری فنڈس فراہم کرے۔ مجلس کے فلور لیڈر نے بتایا کہ کانگریس نے اس اسکیم کے تحت رقم میں اضافہ اور سونے کی فراہمی کا بھی وعدہ کیاتھا لیکن درخواستیں کئی زیر التواہیں مستحق افراد حکومت کی امداد کے منتظر ہیں۔ قرض پر رقم لیکر شادیاں کی جاتی ہیں حکومت سے امداد ملنے کے بعد وہ قرض لوٹایا جاتا ہے اس لئے ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس مسئلہ کی یکسوئی کرے۔ جناب اکبر الدین اویسی نے بتایا کہ اسٹیٹ فینانس کمیشن
نے جو سفارشات دی ہیں اس پر عمل آوری کے لئے احکامات جاری کئے جائیں اور سفارشات پر مالی سال 2024-25میں عمل کیاجائے۔ اسٹیٹ فینانس کمیشن نے 11فیصد ریونیو کے ٹرانسفر سے متعلق جو سفارش دی ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اس بات پر افسوس ہے کہ حکومت نے اس کو قبول نہیں کیا جس کی وجہ سے ادارہ جات مقامی باخصوص جی ایچ ایم سی کو بڑا نقصان ہوا ہے جو پہلے سے ہی معاشی اتحطاط کا شکا ہے۔ مجلس کے فلور نے سی اے جی کی رپورٹ ایوان میں پیش ہونے سے پہلے ہی اس کا میڈیا میں افشا ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایاکہ قواعد کے مطابق سی اے جی رپورٹ کو ایوان میں پیش کیا جانا چاہئے۔ سابقہ حکومتوں کے دوران بھی بجٹ اجلاس کے آخر میں یہ رپورٹ پیش کی جاتی تھی تاکہ اس پر ایوان میں مباحث ہوں۔ موجودہ حکومت کو یہ روایت بدلنے کی ضرورت ہے۔ سی اے جی کی جانب سے جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ سنٹرل واٹر کمیشن نے کالیشورم پراجکٹ کی تخمینہ لاگت 81ہزار کروڑ روپئے مقرر کی تھی جس میں ایک لاکھ 47ہزار کروڑ تک کے اضافہ کا اندیشہ ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی قیاس کیاگیا ہے کہ ایک روپیہ خرچ کرنے پر صرف 52پیسہ ہی کا ثمر حاصل ہوا۔ 86ہزار کروڑ روپئے جو خرچ کئے گئے ہیں ان میں سے 55ہزار کروڑ روپئے یعنی 64فیصد قرض لے کر خرچ کئے گئے ہیں۔ جناب اکبرالدین اویسی نے بتایا کہ وہ شروع سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اگرآبپاشی پراجکٹس کیلئے نصب کردہ تمام پمپس استعمال کئے جائینگے تو پوری ریاستوں میں جتنی یومیہ برقی خرچ کی جارہی ہیں اس سے زیادہ برقی وہاں درکار ہوگی۔ ان کے اندیشوں کے اس سے پہلے بھی حکومت نے مسترد کردیا لیکن یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے۔