تلنگانہ اسمبلی میں مجلس کے فلور لیڈر اکبر الدین اویسی نے این پی آر، این آر سی اور سی اے اے کے خلاف پیش کردہ قرار داد کے مباحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام قوانین ہندوستانی شہریوں کی شہریت ختم کرنے اور بیرونی شہریوں کو ہندوستانی شہریت فراہم کرنے سے متعلق ہیں۔ اکبر الدین اویسی نے کہا کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے یہ تمام ہندو، سکھ، خاص طور پر دلتوں اور گریجن کا مسئلہ ہے جو اپنی پیدائش کی سند نہیں رکھتے۔انہوں نے کہاکہ سی اے اے نہ صرف ملک کو تقسیم کرتا ہے بلکہ یہ ملک کو کمزور بھی کرتا ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم ایسے قوانین بنائیں جو لوگوں کو متحد کریں تاہم سی اے اے جیسے قوانین سماج میں دراڑ پیداکررہے ہیں۔ہمارے ملک کی شبیہ،کثرت میں وحدت کی تاریخ ایسے قوانین سے داغدار بن رہی ہے۔سی اے اے، این پی آر اوراین آر سی کے خلاف 8ریاستوں نے قرارداد منظور کی ہے تاہم کسی بھی ریاست نے اس طرح تفصیلی قراردادجس کو آج تلنگانہ قانون ساز اسمبلی میں منظوری دی جارہی ہے کی طرح پیش نہیں کی ہے۔
اکبر الدین اویسی کاکہنا ہے کہ ملک کا دستور تلک لگانے والے، پگڑی پہننے والے سکھ اور داڑھی رکھنے والے مسلم کو مساوی
درجہ دیتا ہے۔وزیراعلی کے چندرشیکھرراو نے دستوری اصولوں کااحترام کیا ہے۔انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ قانون جامعہ اور اے ایم یو کے طلبہ پر حملوں کے لئے ذمہ دار نہیں ہے؟یوپی اور دہلی میں کئی جانوں کے اتلاف کے لئے کیا سی اے اے ذمہ دار نہیں ہے؟انہوں نے کہاکہ اس قانون کی وجہ سے ہی عوام احتجاج کررہے ہیں۔اگر یہ قانون نہیں ہوتا تو نہ احتجاج ہوتا اور نہ ہی معصوم لوگوں کا خون بہتا۔یہ ملک تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ساتھ اُن لوگوں کا بھی ہے جو مذہب کو نہیں مانتے۔آج سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کی پورے ملک میں مخالفت کی جارہی ہے۔ہم اس طرح کی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں کہ سی اے اے دستور ہند کا مخالف ہوگیا ہے،این پی آر کے قواعد اہم قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور شمارکنندوں کا مینول،قانون کی خلاف ورزی کررہا ہے۔این پی آر کے قوانین کی تیاری سی اے اے 2003کے قانون کی تیاری سے ایک سال پہلے کی گئی تھی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ بچہ کی پیدائش والدین سے پہلے ہوگئی ہو۔این پی آر/این آر سی کے 2003کے قوانین اصل ایکٹ (شہریت ایکٹ 1955)کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔این پی آر غیر قانونی اور غیردستوری ہے کیونکہ اس کو قانونی حمایت حاصل نہیں ہے۔